ہریانہ میں روہنگیا مسلمانوں کی شناخت کی تصدیق کے لیے 12 جنوری کی آخری تاریخ مقرر
نئی دہلی ،05 جنوری :۔
ملک بھر میں اب روہنگیا اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کی تصدیق کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔اب ہریانہ میں روہنگیا مسلمانوں کی شناخت کی تصدیق کے لیے حکومت نے 12 جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔ جس کے بعد تنازع شروع ہو گیا ہے۔ ناقدین نے حکام پر ایک کمزور کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ پولیس اور کرمنل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کے ساتھ چلائی گئی اس مہم کا مقصد 12 جنوری تک اس عمل کو مکمل کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نوح جیسے اضلاع میں روہنگیا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حفاظتی اقدام ہے۔ ہریانہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، کارتیکیہ شرما نے کہا، "یہ تصدیق عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، روہنگیا کو مجرمانہ یا ملک مخالف سرگرمیوں سے جوڑنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے، جس سے تعصب کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ۔
یہ کارروائی در اصل آر ایس ایس کی اپیل اور دباؤ پر کی جا رہی ہے۔حالیہ دنوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ہریانہ سے روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اقدام ان گروپوں کے دباؤ سے مطابقت رکھتا ہے جن کا مقصد ہندو ووٹروں کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تقریباً 2,000 روہنگیا مسلمان ریواڑی، مہندر گڑھ، نوح اور فرید آباد جیسے اضلاع میں آباد ہیں، گزشتہ ایک دہائی کے دوران مقامی برادریوں میں ضم ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس شناختی دستاویزات ہیں جیسے آدھار اور راشن کارڈ۔
حکومت کی اس کارروائی پر ایک روہنگیا باشندے عبدالکریم نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہم تشدد سے بچنے کے لیے میانمار سے بھاگ کر آئے۔ اب یہاں ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ ہم صرف امن سے رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مہم سے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔انہوں نے مساوات اور امتیازی سلوک جیسے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
ایک مقامی انسانی حقوق کے وکیل نے کہا کہ روہنگیا پہلے ہی بے پناہ مشکلات جھیل چکے ہیں۔ وہ ہمدردی کے مستحق ہیں، شک کے نہیں۔