ہردوار: مسلم نوجوان کی حراست میں موت کے معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم
ایک سال بعد 24 سالہ جم ٹرینر وسیم کے موت کے معاملے میں تین نامعلوم افسران سمیت چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف عدالت نے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،12 ستمبر :۔
ہری دوار کے گنگ نہر تھانہ علاقے میں ایک سال قبل 24 سالہ جم ٹرینر وسیم "مونو” قریشی کی المناک موت کے معاملے میں ہریدوار پولیس نے ہریدوار سیشن کورٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے تین نامعلوم افسران سمیت چھ اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملزم، سب انسپکٹر شرد سنگھ اور کانسٹیبل سنیل سینی اور پروین سینی، تین نامعلوم پولیس اہلکاروں پرالزام ہے کہ انہوں نے قریشی کو بے دردی سے پیٹا اور اسے تالاب میں دھکیل دیا، جس کے نتیجے میں وہ 24 اگست 2024 کو اس کی ڈوب کر موت ہو گئی۔
سہیل پور گڈا گاؤں کا رہنے والا قریشی گنگ نہر تھانے کے علاقے میں ایک تالاب میں مردہ پایا گیا۔ اس کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ گؤ رکشکوں کے چھ رکنی دستے نے اسے اس وقت روکا جب وہ مادھو پور میں اپنی بہن سے ملنے کے بعد اپنے اسکوٹر پر گھر لوٹ رہا تھا۔
خاندان کی شکایت میں کہا گیا ہے کہ اہلکاروں نے اسے ایک قبرستان کے قریب مارا اور تالاب میں پھینک دیا، مدد کی فریاد کے باوجود اسے جانے نہیں دیا گیا ۔ سفیان اور سونو سمیت گواہوں نے مداخلت کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس کی طرف سے مبینہ طور پر بندوق کی نوک پر انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ خاندان نے قریشی پر لگائے گئے گائے کے ذبیحہ کے الزامات کی تردید کی ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قریشی کے جسم پر چھ زخموں کا انکشاف ہوا، جس سے جسمانی حملے کے دعووں کی تائید ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پر، پولیس نے خاندان کی شکایت کو نظر انداز کیا اور اس کے بجائے قریشی کے کزن علاؤالدین اور 150 سے زائد افراد کے خلاف اسکواڈ پر حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔ قتل کا مقدمہ درج کرنے کے لیے علاؤالدین کی مسلسل کوششوں کو اس وقت تک مسترد کر دیا گیا جب تک وہ ہریدوار کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) سے رجوع نہیں ہوا۔
میڈیکل اور ویڈیو شواہد کا جائزہ لینے کے بعد، سی جے ایم اویناش کمار سریواستو نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، اس فیصلے کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے برقرار رکھا۔
یہ مقدمہ بھارتیہ نیا سنہتا کی دفعہ 103(1) (قتل)، 351(3) (مجرمانہ دھمکی) اور 3(5) (مشترکہ نیت) کے تحت درج کیا گیا ہے۔ خاندان کے وکیل سجاد احمد نے ان شواہد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عدالت کو یقین تھا کہ یہ قتل کا معاملہ ہے۔جو عدالتی کارروائی کا باعث بنا۔