ہاتھرس ستسنگ حادثہ:اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟

سو سے زائد افراد کی موت کے بعد بھی ہر طرف خاموشی،دلت ووٹ بینک کی ناراضگی کا خوف ،بابا کے  خلاف تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما کھل کربولنے سے گریزاں،حکومتی کی کارروائی بھی آرگنائزنگ کمیٹی تک محدود

نئی دہلی 09 جولائی:

ہاتھرس میں پیش آئے ستسنگ حادثے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 121 سے زائد افراد کی موت ہو گئی اور سیکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوگئے۔لیکن حیرت انگیز طور پر ہر طرف سناٹا اور خاموشی ہے،اگر کہیں چیخ و پکار ہے ،کہیں ماتم ہے تو صرف مہلوکین اور مجروحین کے گھروں میں ۔ورنہ انتظامیہ ،پولیس محکمہ ،سرکار  اور سیاست دانوں کا غم محض تعزیت تک محدود ہے ۔  اس حادثے کے قصور واروں کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔

ویسے تو سماج  اور سیاسی ایوانوں کو جھکجھور دینے کے لئے ایک ہی موت کافی ہے لیکن یہاں تو 121 افراد  کی زندگی چلی گئی  اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں اس کے باوجود ملک میں جیسی ہلچل نظر آنی چاہئے وہ نہیں ہے۔ اس ستسنگ کی تقریب کے انعقاد میں شامل  کچھ لوگ گرفتار ضرور ہوئے ہیں اور ہیڈ منتظم نے خود سپردگی بھی کر دی ہے جسے جیل رسید کر دیا گیا ہے  تاہم سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ  اس حادثہ کے مرکزی کردار اب تک بالکل سیف ہیں  تمام کارروائیوں سے انہیں دور رکھا گیا ہے  ۔

اس سلسلے میں کارروائی کے طور پر  ایس آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ تمام ذمہ داروں کے نام اس رپورٹ میں شامل  ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے یہ رپورٹ 128 لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس پورے واقعہ میں سورج پال عرف ساکر وشو ہری عرف بھولے بابا کا کوئی ذکر تک نہیں ہے۔

ایس آئی ٹی کی اس رپورٹ  کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس رپورٹ میں ستسنگ منعقد کرنے والی کمیٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ افسران کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں ستسنگ کی اجازت دینے والے ہاتھرس کے ڈی ایم آشیش کمار، ایس پی نپون اگروال، ایس ڈی ایم اور سی او سکندرا راؤ اور 2 جولائی کو ستسنگ ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکار کے بیانات بھی شامل ہیں۔بتایا گیا ہے کہ اجازت سے زیادہ بھیڑ جمع ہوئی لیکن افسران نے جا کر موقع کا معائنہ نہیں کیا۔ ایس آئی ٹی نے جو 119 افراد کے بیانات کی 300 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ہے اس میں  منتظمین کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ اس میں ایک شخص کا یہ بیان بھی درج ہے کہ سورج پال عرف ’بھولے بابا‘ نے   کہا تھا کہ لوگ ان کے چرن یعنی پیروں کی مٹی یعنی دھول لے کر جائیں اور جیسے ہی بابا وہاں سے روانہ ہوئے ویسے ہی لوگ ان کے چرن کی دھول لینے کے لئے بھاگے اور اس بھگدڑ میں لوگوں کی موت ہو گئی۔لیکن  پھر بھی بابا قصور وار نہیں۔

جس بڑی تعداد میں بے گناہ افراد لقمہ اجل ہو گئے ہیں اس لحاظ سے اب تک سماج کے ساتھ ساتھ سیاسی ایوانوں میں بھی   ہنگامہ ہو جانا چاہئے تھا مگر کسی بھی بڑے سیاسی رہنما نے بابا کے خلاف ڈائریکٹ کارروائی کی آواز نہیں اٹھائی ہے ۔ ظاہر طور پر اس کے پس پردہ وجوہ سیاسی  ہیں اور ووٹ بینک کار فرما ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ بابا کے پاس  بڑی تعداد میں بھکت ہیں ،ہاتھرس کے علاوہ قرب و جوار کے اضلاع میں بابا کی گہری پیٹھ ہے۔اس لئے کوئی بھی سیاسی پارٹی یا لیڈر  کھل کر بابا کا نام لینے سے بچ رہا ہے۔کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں چاہتی کہ بابا کا نام لے کر بھکتوں کو ناراض کرے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بابا یعنی سورج پال کا تعلق دلت سماج سے ہے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کا اقدام دلت سماج  کے خلاف کارروائی سمجھی جائے گی ۔  یہی وجہ ہے کہ حکمراں جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی جماعتیں ایس پی ،بی ایس پی اور آ ر ایل ڈی کے ساتھ دیگر جماعتیں خاموش ہیں کہ یہ معاملہ خود بخود ٹھنڈا ہو جائے۔

ہمارے ملک میں یہ ایک عجیب  صورت حال ہے کہ جو بھی  اپنی منزل پانے اور مقصد میں نا کام ہوتا ہے وہ اپنی شعبدہ بازی اور عیاری  کا مظاہرہ کرتے ہوئے دربار سزا لیتا ہے۔اور چند دنوں میں ہی پہنچا ہوا فقیر اور مہاتما بن کر لاکھوں لوگوں کو اپنے بھکتوں اور مریدوں میں شامل کر لیتا ہے۔پھر اس کے بعد اس کے سات خون معاف ،دولت اور سرمائے کی ریل پیل ہو جاتی ہے۔غربت اور جہالت ان باباؤں کا کھاد پانی ہوتا ہے۔غریب اور جاہل عوام اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ان باباؤں کو آسان ذریعہ سمجھ کر ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں ۔ہاتھرس کا یہ واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔

ہمارے ملک میں مذہبی تقریبات میں بھگدڑ کے ایسے واقعات کی اپنی تاریخ ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 2000 سے 2013 کے عرصے میں ان میں تقریباً 2000 لوگ مارے گئے۔ انٹرنیشنل جرنل آف ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کی طرف سے شائع ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں بھگدڑ کے 79 فیصد واقعات مذہبی اجتماعات اور تقریبات کی وجہ سے ہوتے ہیں، جن کی بڑی وجہ تنگ راستے، گنجائش سے زیادہ ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کا فقدان اور ناقص  انتظامات ہوتے ہیں۔ایسے حادثے آئے دن ہوتے رہتےہیں لیکن پھر بھی لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں ۔توہم پرستی کی یہ لعنت پھر دوسری شکل لے کر آجاتی ہے۔پھر ایک نیا دربار سج جاتا ہے،نیا بابا نمودار ہو جاتا ہے۔