گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت حیران کن :سید سعادت اللہ حسینی
نئی دہلی،02فروری :۔
وارانسی واقع گیان واپی جامع مسجد کے معاملے میں ضلعی عدالت نے جس سرعت کے ساتھ ہندو فریق کے حق میں احکامات صادر کئے ہیں اس سے ملک کے مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انصاف پسند طبقہ حیران ہے۔معروف ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں وارانسی عدالت کی جانب سے پوجا کی اجازت دیئے جانے پر اپنی حیرانی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ وارانسی کی عدالت کے ذریعے گیان واپی مسجد کے جنوبی تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دینا انتہائی حیران کن ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ’ ورشپس پلیس ایکٹ 1991‘ کے خلاف ہے ۔ عملی طور پر ٹائٹل سوٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ یہ مقدمہ ابھی عدالتوں میں زیر التوا ہے۔ چونکہ تہہ خانہ اس مسجد کا حصہ ہے لہٰذا وہاں پوجا کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ اسی لئے جماعت اسلامی ہند ’ انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی‘ کی طرف سے عدالت کے فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں لے جانے کے عزم کی حمایت کرتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ کورٹ کے اس عجیب و غریب فیصلے کے بعد ہونے والے واقعات پریشان کن ہیں۔ پوجا کے سبب مسجد کے احاطے اور اس کے تقدس کی جو پامالی ہوئی ہے ، یہ افسوسناک ہے۔ ہم اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ اب اعلیٰ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد پر ناجائز تسلط کے لئے کی جانے والی کاروائیوں کو پلٹیں‘‘۔
امیر جماعت نے کہا کہ ہم پہلے بھی ’ ورشپس پلیس ایکٹ 1991‘ کی پاسداری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور آج پھر اسی کا اعادہ کرتے ہیں ۔ یہ ایکٹ عوامی عبادت گاہوں کو 15 اگست 1947 کے مذہبی کردار پر برقرار رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس موقع پر حکومت ہند کو اس ایکٹ کی حمایت میں کھل کر سامنے آنا چاہئے اور اعلان کرنا چاہئے کہ وہ اس پر مکمل طور پر عمل کرے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ وارانسی کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ مذکورہ ایکٹ کو دھیان میں رکھتے ہوئے پلٹ دے گا۔ ہمیں بابری مسجد کے مالکانہ حق کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا کے ان لفظوں کو ذہن نشیں رکھنا چاہئے جس میں سپریم کورٹ نے ’ ورشپس پلیس ایکٹ ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو ’ایک سیکولر ملک کی ذمہ داریوں سے متعلق‘ قرار دیا تھا۔ یہ تمام مذاہب کی مساوات کے تئیں ہندوستان کی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ ایکٹ ملک پر تمام عقائد کی مساوات کو آئینی طور پر برقرار رکھنے کو لازمی قرار دیتا ہے ۔ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کو آئین کی بنیادی خصوصیت کی حیثیت حاصل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ عوامی عبادت گاہوں کے کردار کو برقرار رکھنے اور اس کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ تاریخ اور اس کی غلطیوں کو حال اور مستقبل پر جبر کرنے کے لئے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔