گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت کے فیصلے کی مسلم تنظیموں نے مذمت کی
ہنگامی اور اعلیٰ سطحی پریس کانفرنس میں مسلم تنظیموں نے عبادت گاہ ایکٹ پر سپریم کورٹ کی مسلسل خاموشی پر تشویش کا اظہار کیا، صدر جمہوریہ سے ملنے کاوقت مانگا
نئی دہلی،2 فروری:۔
گیان واپی کی جامع مسجد کے تہہ خانہ میں انتہائی عجلت کے ساتھ وارانسی کورٹ کے ذریعہ پوجا کی اجازت دیئے جانے پر آج ملک کی سرکردہ مسلم تنظیموں نے سخت الفاظ میں مذمت کی اور اس فیصلے کو انتظامیہ اور ہندو فریق کی ساز باز کا نتیجہ قرار دیا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں مسلم تنظیموں کی مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد آج یہاں جمعیۃ علمائے ہند کے مدنی ہال میں کیا گیا ۔اس مشترکہ پریس کانفرنس میں تمام ملی سربراہان نے فیصلے کو بے بنیاد اور غیر قانونی قرار دیا۔
شرکا نے مشترکہ پریس کانفرن سمیں کہا کہ گیان واپی مسجد کی نچلی منزل میں راتوں رات لوہے کی گرل کانٹ کر اور مورتیاں رکھ کر بہت عجلت میں پوجا کا شروع کروادیا جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایڈمنسٹریشن مدعی کے ساتھ مل کر مسجد کمیٹی کے آر ڈر کے خلاف اپیل کے حق کو متاثر کرنا چاہتا تھا، ہم اس ملی بھگت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ حالانکہ عدالت نے انتظامیہ کو اس کام کے لئے ۷ دن کا وقت دیاتھا- ہمیں وارانسی ڈسڑکٹ جج کے فیصلہ پر بھی سخت حیرت اور افسوس ہے – ہمارے نزدیک یہ فیصلہ انتہائی غلط اور بے بنیاد دلیل کی بنیاد پر دیا گیا کہ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں 1993 تک سومناتھ ویاس کا پریوار پوجا کرتا تھااور اس وقت کی ریاستی سرکار کے حکم پر اسے بند کردیا گیا تھا- 17, جنوری اسی کورٹ نے تہہ خانے کو ضلعی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا تھا-
ذمہ داران نے کہا کہ ہم یہ بات واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تہہ خانے میں کبھی بھی پوجا نہیں ہوئی تھی، ایک لغو اور بے بنیاد دعوے کو بنیاد بناکر ضلعی جج نے اپنی سروس کے آخری دن انتہائی قابل اعتراض اور بے بنیاد فیصلہ دیا ہے۔ اسی طرح آرکیولوجیکل سروے کی رپورٹ کا بھی ھندو فریق نے پریس میں یکطرفہ طور پر انکشاف کرکے سماج میں انتشار پیدا کیا ہے حالانکہ ابھی عدالت میں نہ تو اس پر کوئی بحث ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق۔ ابھی اس رپورٹ کی حیثیت محض ایک دعوے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف گیان واپی مسجد تک محدود نہیں ہے بلکہ جس طرح متھرا کی شاہی عیدگاہ، دہلی کی سنہری و دیگر مساجد اور ملک کے طول و عرض میں متعدد مساجد اور وقف کی جائیدادوں پر مسلسل بے بنیاد دعوے کئے جارہے مزید برآن اپنے فیصلے میں اس قانون کو ملک کے سیکولر ڈھانچے کے لیے ضروری قراردینے اور اس کی پاسداری کی واضح ہدایت دینے کے باجود،عدالت عظمیٰ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے قانون پر مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، اس نے ملک کے مسلمانوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
کسی بھی جمہوری نظام میں عدالتیں سماج کے مظلوم اور متاثر افراد کی داد رسی کا آخری سہارا ہوتی ہیں لیکن اگر وہ بھی جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے لگیں تو پھر انصاف کی دہائی کس سے لگائی جائے گی۔
ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے اس احساس کو صدر جمہوریہ تک جو کہ ملک کا سربراہ اعلی ہے پہنچانے کے لئے ان کے نمائندے کی حیثیت سے ہم نے وقت مانگا ہے تاکہ اس کے تدارک کے لئے وہ اپنی سطح سے کوشش کرسکیں۔اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے اس احساس کو ہم مناسب طریقے سے چیف جسٹس آف انڈیا تک بھی پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
پریس کانفرنس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مولانا سید ارشد مدنی، صدر، جمیعت علمائے ہند،مولانا اصغر امام مہدی، صدر مرکزی جمیعت اہل حدیث،مولانا سید اسد محمود مدنی، صدر جمیعت علما ھند،ملک معتصم خان ، نائب امیرجماعت اسلامی ھند، اسد الدین اویسی، ایم پی، صدر آل انڈیامجلس اتحادالمسلمین، مولانا مفتی مکرم احمد، شاہی امام، فتح پوری ،ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس،ترجمان و ممبرمجلس عاملہ پرسنل لا بورڈاورکمال فاروقی، ممبر مجلس عاملہ، مسلم پرسنل لا بورڈ شامل تھے ۔