گیان واپی مسجد کے بارے میں گمراہ کن مہم تشویشناک
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ پلیس آف ورشپس ایکٹ کی پاسداری ہونی چاہئے
نئی دہلی31جنوری:
وارانسی میں واقع جامع مسجد گیان واپی کے سلسلے میں ضلعی عدالت کے ذریعہ یکے بعد دیگرے ہندو فریق کے حق میں صادر کئے جا رہے احکامات پر مسلم تنظیموں اور شخصیات نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔جماعت اسلامی ہند نے بھی اس کے پس پردہ شر پسند اور شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے چلائی جا رہی مسجد کے خلاف گمراہ کن مہم قرار دیا ہے۔جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے اخبار کے نام جاری ایک پیغام میں کہا کہ ” کچھ فرقہ پرست اور شرپسند عناصر کی جانب سے گیانواپی مسجد کے سلسلے میں گمراہ کن مہم چلائی جارہی ہے جوانتہائی تشویش کا باعث ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا ( اے ایس آئی ) رپورٹ کی غلط تشریح پیش کرکے عوام کو گمراہ ، عدلیہ کو متاثر اور ملک میں فرقہ وارانہ آہنگی کو خراب کرنے کے ارادے سے دو مذہبی کمیونٹی کے درمیان دراڑ پیدا کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ ’اے ایس آئی‘ کی رپورٹ اس متنازعہ معاملے میں حتمی ثبوت نہیں بن سکتی“۔ انہوں نے کہا کہ ” پلیس آف ورشپس ایکٹ 1991( عبادت گاہوں کی دفعہ ) کی پاسداری لازمی طور پر ہونی چاہئے۔ اس ایکٹ میں عوامی عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو اسی حالت میں برقرار رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے جس حالت میں یہ 15 اگست 1947 میں تھیں۔ ’آستھا‘ کی بنیاد پر دیگر طبقے کی مذہبی عبادت گاہوں پر دعوے یا پہلے سے وہاں پر کسی اور مذہبی ڈھانچے کی مبینہ موجودگی کی دعویداری کو بنیاد مان لیا جائے تو اس سے دعوو ں اور جوابی دعوؤں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر بدھ مت کے پیروکار دعویٰ کرتے ہیں کہ 84000 سے زیادہ بدھسٹ وہارا اور مجسموں کو بادشاہوں نے گرایا ہے۔ اسی طرح جین مذہب کے پیروکار کہتے ہیں کہ ہزاروں جین مندروں کو ہندو مندروں میں تبدیل کردیا گیا اور تقریبا تمام ہی ہندو زیارت گاہیں ایک زمانے میں جین مندر ہوا کرتی تھیں۔ ہندوؤں نے بھی 2000 ایسی مساجد کی فہرست تیار کررکھی ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سب مندروں کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہیں۔ تو کیا یہ عبادت گاہیں ان نئے دعویداروں کے حوالے کردی جائیں گی ؟ یہ انتشار و افراتفری کا باعث بن جائے گا۔ لہٰذا کسی کو بھی تاریخ میں الٹ پھیر کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ووٹ بینک کی سیاست کرنے کے لئے جذباتی مسائل کو ہوا دینے کی اجازت دی جانی چاہئے“۔
نائب امیر جماعت ملک معتصم خان نے مزید کہا کہ ” رام جنم بھومی اور بابری مسجد کیس میں بھی ’ اے ایس آئی‘ نے مسجد کے نیچے ایک ’ غیر اسلامی ڈھانچہ‘ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے آثار قدیمہ کے معروف و ممتاز ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جنہوں نے پہلے سےموجود رام مندر کو گرا کر بابری مسجد بنائی جانے کے کسی بھی امکان سے انکار کیا “۔
انہوں نے کہا کہ ”جماعت اسلامی ہند ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس خیال کی حمایت کرتی ہے کہ گیان واپی مسجد کے بارے میں ’ اے ایس آئی ‘ کی رپورٹ کا ماہرین کے ذریعہ مکمل جائزہ لیا جانا چاہئے اور فیصلے کو عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔ نیز جانبدار میڈیا کے پروپیگنڈے پر بھروسہ نہیں کیا جانا چاہئے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” ہمیں افسوس ہے کہ موجودہ وقت میں سچائی اور انصاف کے اصولوں سے سمجھوتہ کرکے سرکاری اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ انہیں ایک مخصوص طبقے کے حق میں کیا جاسکے۔ ہم ملک کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ گیان واپی مسجد کے بارے میں عدلیہ کا حتمی فیصلہ آجانے تک کوئی رائے قائم نہ کریں۔ ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔ یہاں کسی خاص مذہب یا ثقافت کے لوگوں کے لئے کوئی مخصوص حقوق و مراعات نہیں دی گئی ہیں۔