گیان واپی جامع مسجد میں پوجا کی اجازت   کا فیصلہ ’ عدالتی کارسیوا‘

انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری  ایس ایم یاسین نے فیصلے کو عدلیہ کا مکروہ چہرہ قرار دیا

نئی دہلی ،03فروری :۔

گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں ضلعی عدالت کے ذریعہ ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دینے کے بعد ملک بھر کے مسلمانوں میں مایوسی اور عدلیہ کے تئیں ناراضگی ہے۔ملی تنظیموں نے اس سلسلے میں پریس کانفرنس کر کے اپنے فکر اور تشویش کا اظہار کیا ۔عدالت کی عاجلانہ کارروائی پر سوال کھڑے کئے۔دریں اثنا بنارس میں گیان واپی اور دیگر مساجد کا انتظام و انصراف دیکھنے والا ادارہ انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری  ایس ایم یاسین نے جمعہ کو شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کو تعصب پر مبنی کارروائی قرار دیتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا۔

جمعہ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے مسجد کمیٹی کی درخواست کو نظر انداز کرنے   جنوبی تہہ خانے میں پوجا پر عبوری روک لگانے کی درخواست  سے انکار کر دیا۔

ایس ایم یاسین نے اس پوری کارروائی کو عدلیہ کا مکروہ چہرہ قرار دیا۔انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ   بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہندوستان میں عدلیہ کی تباہی کی نشاندہی کی۔ انہوں نے موجودہ بحران کے لیے عدالتی مشینری کی نا اہلی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نومبر 2019 میں بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کی بنچ کے پانچ ججوں کو لوگوں نے احترام کے ساتھ "مائی لارڈ”  کہہ کر مخاطب کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے ایک ایسا فیصلہ جاری کیا جس نے قانون پر عوام کے اعتماد کو کمزور کیا اور عدالتی نظام  کو تنزلی کی راہ پر ڈال دیا۔ انہوں نے کہا کہ  آج ہندوستان میں موجودہ ’’افراتفری‘‘ کی ذمہ داری عدلیہ کی نااہلی پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گیانواپی مسجد ک اسی غیر منصفانہ فرمان کا  شکار  ہے۔  جس میں عدالت اور نوکر شاہی دونوں نے ہندو قوم پرستوں کے لیے مسجد کے احاطے پر قبضہ کی راہ ہموار کی ہے۔

انہوں نے گیان واپی مسجد میں اے ایس آئی  سروے کی اجازت  کواس  نا انصافی کا پہلا قدم  قرار دیتے ہوئے   کہا کہ اسے ہم "عدالتی کارسیوا” کہتے ہیں۔ حکم صادر ہوتے ہی عدالتی ڈکیتی  بھی شروع کر دی گئی۔ انہوں نے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے والے جج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ  پہلے ہی دن، ایک بھرے سیشن میں، انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ’’عدالت سے باہر  اس معاملے میں سمجھوتہ‘‘ ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کے اس تبصرے کے بعد ہی انصاف پسند لوگوں کو احساس ہوگیاتھا کہ ایک طوفان آنے والا ہے۔ بالآخر 31 جنوری کو اپنی  ریٹائرمنٹ سے چند گھنٹے قبل تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دے دی اور رات   کے اندھیرے میں، مختلف آئینی عہدیداروں کی نگرانی میں، جنہوں نے عدالت میں قانون کی حکمرانی سے اپنی وفاداری کا عہد کیا تھا، رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔ رات کی تاریکی میں، اعلیٰ افسران کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، مسجد کے جنوبی تہہ خانے میں بت رکھے گئے، اور گھنٹیوں کی آواز نے ملک کے کرورڑوں مسلمانوں کوخاموش خوف میں مبتلا کر دیا۔ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ کا یہ بدترین دن ان بوڑھی آنکھوں نے دیکھا۔ آئین پر یقین رکھنے والوں اور عدلیہ پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ ایک اہم امتحان ہے۔  انہوں نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ  "ہم ان سے بہتر کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارا مقدر آئین اور نظام انصاف کی تنزلی کا ماتم کرنا ہے۔