گیان واپی جامع مسجد:انتظامیہ کمیٹی نے سروے رپورٹ کو جھوٹی روایت قائم کرنے کی کوشش قرار دیا
انتظامیہ کمیٹی نے تاریخی شواہد پیش کئے،ہندو فریق کے دعوے کو بے بنیاد بتایا،سپریم کورٹ میں لڑائی جاری رکھنے کا اعلان
وارانسی،نئی دہلی ،30 جنوری :۔
جامع مسجد گیان واپی کے سلسلے میں حالیہ دنوں میں سروے رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ہندو فریق کی جانب سے بلند بانگ دعوے شروع ہو گئے ہیں ۔شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سےمسجد میں مورتیوں کی بر آمدگی کے دعوے کے ساتھ پہلے مندر ہونے اور مسلمانوں سے سونپ دینے کی بات کی جا رہی ہے ۔شدت پسند تنظیموں کی جانب سے متعدد ہنگامہ آرائی جاری ہے اور میڈیا میں بھی وہی سب کچھ سامنے آ رہا ہے جو ہندو فریق دعوے کر رہا ہے ۔بلکہ اس دعوے کو حقیقت کا جامہ پہنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا گیان واپی مسجد انتظامیہ کمیٹی نے ہندو فریق کے دعوے پر اپنے تفصیلی رد عمل میں اس سروے رپورٹ کو جھوٹی روایت قائم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے پاس دستیاب تاریخ کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا ہےکہ یہ مسجد 15ویں صدی میں اورنگ زیب سے پہلے تعمیر ہوئی ،اور خالی زمین پر تعمیر کی گئی تھی ۔اس کے بعد تین مرحلے میں اس کی توسیع اور تجدید اکبر اور اورنگ زیب کے ذریعہ کی جاتی رہی ۔
اے ایس آئی سروے رپورٹ پر تفصیلی ردعمل میں کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یاسین نے کہاکہ اے ایس آئی رپورٹ کا تفصیلی مطالعہ قانونی ماہرین اور مورخین کر رہے ہیں۔ لیکن، رپورٹ کے ابتدائی مطالعہ کے بعد، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اے ایس آئی رپورٹ کے حقائق اور نتائج مئی 2022 میں کیے گئے کورٹ کمشنر سروے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ سائنسی مطالعہ کے نام پر صرف ایک غلط بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایس ایم یاسین نے کہا کہ "ہمارے پاس دستیاب تاریخ کے مطابق، جونپور کے ایک امیر شیخ سلیمانی محدث نے 804-42 ہجری (15ویں صدی کے آغاز میں) کے درمیان گیانواپی میں ایک کھلی زمین پر مسجد تعمیر کی تھی۔ اس کے بعد مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی کے فلسفے کے مطابق مسجد کی توسیع کا آغاز کیا اور مغربی دیوار کے کھنڈرات اسی تعمیر کا حصہ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اورنگ زیب نے 17ویں صدی میں مزید توسیع کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ مسجد اورنگ زیب سے پہلے موجود تھی اور اسے تین مرحلوں میں تعمیر اور توسیع کی گئی۔
اس موقع پر جوائنٹ سکریٹری یسین نے ہندو فریق کے دعوے پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ’’یہ کیسے دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ پہلے صرف ایک عظیم الشان ہندو مندر تھا؟‘‘ وارانسی بھی بدھ مت کا ایک بڑا مرکز رہا ہے اور شنکراچاریہ کی آمد کے بعد بدھ مت کے ماننے والے یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اصل تاریخ معلوم کرنے کے لئےاس بات کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے کہ کیا یہاں کوئی بدھ مٹھ یا مندر موجود تھا ۔ اگر شہر کی کھدائی کی جائے تو بدھ مت اور جین مت کے بہت سے حقائق بھی مل سکتے ہیں۔
سروے کے دوران اے ایس آئی کے ذریعہ پائی گئی مورتیوں، سکوں اور دیگر اشیاء کے بارے میں یسین نے کہاکہ "1993 سے پہلے، گیانواپی کے آس پاس کا علاقہ کھلا تھا اور اسے ڈمپنگ یارڈ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اے ایس آئی نے جب سروے شروع کیا تو مسجد کے عقبی حصے میں ملبے کا تقریباً 10 فٹ اونچا ڈھیر پڑا ہوا تھا، جبکہ کوٹھریوں میں 3 فٹ اونچائی تک ملبہ دیکھا گیا۔ یہ چیزیں اسی ملبے سے برآمد ہوئیں، جو کئی دہائیوں سے مسجد کے قریب پھینکی گئی تھیں۔ یاسین نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے بغیر کھدائی سائنسی مطالعہ کے حکم کے باوجود، اے ایس آئی نے بہت سے علاقوں کو کھود دیا۔
عبادت گاہ (خصوصی دفعات) ایکٹ، 1991 کے تحت سپریم کورٹ سے راحت حاصل کرنے کا یقین رکھتے ہوئے یاسین نے کہا کہ کمیٹی نہ صرف اے ایس آئی سروے رپورٹ کو چیلنج کرے گے بلکہ مسجد کی حفاظت کے لیے مقدمہ بھی لڑتی رہے گی۔