گیانواپی معاملہ: وارانسی کورٹ سے ہندو فریق کی عرضی خارج
مسجد کے باقی بچے حصوں کا سروے کرانے کے مطالبہ کیا گیا تھاجسے عدالت نے خارج کر دیا
نئی دہلی ،25 اکتوبر :۔
گیانواپی مسجد تنازعہ سے متعلق آج وارانسی کی عدالت نے ایک بڑا فیصلہ سنایا ہے جس سے ہندو فریق کو جھٹکا لگا ہے۔ وارانسی کورٹ نے ہندو فریق کی اس عرضی کو خارج کر دیا ہے جس میں گیانواپی کے باقی بچے حصوں کا اے ایس آئی سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ گیانواپی کے بچے ہوئے حصوں کا اے ایس آئی سروے نہیں ہوگا۔
قابل ذکر ہے کہ گیانواپی معاملے کے اہم کیس میں 33 سال بعد یہ فیصلہ آیا ہے۔ وارانسی کے ایف ٹی سی کورٹ نے گیانواپی احاطہ کے اضافی سروے کا مطالبہ خارج کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اس کیس سے جڑے معاملے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہونے کی وجہ سے یوگل شمبھو کی عدالت نے ہندو فریق کی اس عرضی کو خارج کر دی۔
1991 کے لارڈ وشویشور بنام انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کیس میں عدالت نے 18 صفحات کا اپنا فیصلہ سنایا جس میں ہندو فریق کی عرضی یہ کہتے ہوئے خارج کر دی کہ اس سے منسلک معاملے پہلے سے ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں۔ عرضی گزار وجئے شنکر رستوگی نے اس فیصلہ کے بعد کہا کہ ’’عدالت نے ہماری کسی بھی دلیل کو نہیں سنا، یہاں تک کہ 18 اپریل 2021 کے فیصلے کو بھی نظر انداز کر دیا۔ ہم اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے۔‘‘
دوسری طرف مسلم فریق نے عدالت کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ مسلم فریق کے وکیل اخلاق احمد نے کہا کہ عدالت نے ہماری دلیل کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ ہمارے حق میں دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ اس سے جڑے معاملے اوپری عدالت میں چل رہے ہیں، لہٰذا اس عدالت سے یہ عرضی خارج ہونی چاہیے۔ ہمیں خوشی ہے کہ عدالت نے ہماری بات مانی۔
واضح رہے کہ ہندو فریق کی جانب سے جو عرضی داخل کی گئی تھی، اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ گیانواپی احاطہ کی سچائی جاننے کے لیے بند تہہ خانوں کے ساتھ ساتھ سیل وضو خانہ اور بقیہ احاطہ کا بھی اے ایس آئی سروے کرایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی شیولنگ نما پتھر کی حقیقت جاننے کے لیے 4×4 ٹرینچ کھدائی کی اجازت دی جائے۔