گیانواپی مسجد معاملہ: الٰہ آباد ہائی کورٹ سے مسلم فریق کو دھچکا، تمام درخواستیں مسترد
ہائی کورٹ نے ضلعی عدالت کو 6 ماہ میں سماعت مکمل کرنے کا دیاحکم
وارانسی ،19دسمبر :۔
وارانسی کی گیانواپی مسجد کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کا آج فیصلہ آگیا ہے جس سے مسجد فریق کو زبر دست دھچکا لگا ہے ۔الہ آباد ہائی کورٹ نے انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی اور تنازعہ سے متعلق دیگر پانچ درخواستوں پر بڑا فیصلہ سنایا۔ اس دوران الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم فریق کی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ نے 1991 کے مقدمے کی سماعت کی منظوری دی۔ اس کے ساتھ ہی وارانسی کورٹ کو 6 ماہ میں سماعت مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ۔ واضح ہو کہ جن پانچ درخواستوں پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا ہے، ان میں سے تین درخواستیں وارانسی کی عدالت میں 1991 میں دائر مقدمے کی برقراری سے متعلق ہیں، جب کہ باقی دو درخواستیں سروے کے خلاف دی گئی چیلنج کی درخواستیں ہیں۔ اے ایس آئی کا حکم جسٹس روہت رنجن اگروال کی سنگل بنچ نے عرضی گزار انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی اور اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ اور مدعا علیہ مندر فریق کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا۔ اس سے پہلے 8 دسمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس روہت رنجن اگروال نے عرضی گزار انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی اور اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ اور مدعا علیہ مندر کی طرف سے دلائل سننے کے بعد چوتھی بار اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔الہ آباد کے اس فیصلے کے بعد مانا جا رہا ہے کہ مسلم فریق سپریم کورٹ کا رخ کر سکتا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے گیانواپی مسجد کی انتظامی کمیٹی کی 3 اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کی 2 درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ مسلم فریق کی دلیل میں کہا گیا ہے کہ 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت آدی وشویشور کے کیس کی سماعت نہیں کی جا سکتی۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ جو 15 اگست 1947 کو موجود تھی، وہ بعد میں بھی موجود رہے گی۔
وہیں، ہندو فریق کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ یہ تنازعہ آزادی سے پہلے کا ہے اور گیانواپی تنازعہ میں عبادت گاہوں کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔ ہندو فریق نے اس جگہ پر مندر کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے جہاں اس وقت گیانواپی مسجد واقع ہے۔ ہندوؤں کے مطابق، گیانواپی مسجد مندر کا ایک حصہ ہے۔