گیانواپی سروے :یہ فیصلہ نہیں، صرف ایک رپورٹ ہے
سروے کے تعلق سے ہندو فریق کے دعوے کو مسجد کے وکیل خارج کرتے ہوئے سراسر غلط قرار دیا
وارانسی،نئی دہلی 26 جنوری :
جامع مسجد گیانواپی کے سلسلے میں اے ایس آئی سروے رپورٹ کے منظر عام پر آنے اور ہندو فریق کی جانب سے مندر ہونے کے دعوے کے بعد پورے ملک میں بحث گرم ہے۔مندر فریق کے وکیل وشنو جین نے مسجد کی جگہ مندر ہونے کے پختہ ثبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے مندرتوڑ کر مسجد کی تعمیر کا دعویٰ کیا ہے جسے مسجد فریق نے سرے سے خارج کر دیا ہے۔ مدعا علیہ اور مسجد کی دیکھ ریکھ کرنے والی تنظیم انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی فیصلہ نہیں ہے، یہ صرف ایک رپورٹ ہے۔ رپورٹ تقریباً 839 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے میں وقت لگے گا۔ اس حوالے سے ماہرین سے رائے لی جائے گی۔ عدالتوں میں بھی اس مئلے کو لے جایا جائے گا ۔کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یاسین نے کہا کہ مسجد کو قبضہ میں رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ مایوسی حرام ہے، صبر کرنا چاہیے۔ اے ایس آئی نے اپنی ساکھ کے مطابق رپورٹ دی ہے۔
جمعہ کی نماز کے بعد مسجد سے باہر آتے ہوئے ایس ایم یاسین نے صحافیوں کو بتایا کہ ہماری اپیل ہے کہ بحث سے گریز کیا جائے۔ جب صحافیوں نے یاسین سے ردعمل حاصل کرنا چاہا تو انہوں نے انہیں یوم جمہوریہ کی مبارکباد دی اور پھر ساتھی نمازیوں نے انہیں مزید بولنے سے روک دیا۔
دوسری جانب مسلم فریق کے وکیل اخلاق احمد کے مطابق مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی ہے اور وہ سروے رپورٹ کا اچھی طرح سے مطالعہ کرنے کے بعد عدالت میں اس پر اعتراض داخل کر سکتے ہیں۔
مسجد کے وکیل اخلاق احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہندو فریق کوئی ایکسپرٹ نہیں ہے جو کسی عمارت کو دیکھ کر بتا سکے کہ پتھر کتنا پرانا ہے اور اس میں استعمال ہونے والے ساز و سامان پہلے کہاں استعمال ہو چکے ہیں۔ یہ باتیں تو اے ایس آئی کی رپورٹ میں بھی نہیں ہے۔‘‘ رپورٹ کی تصویروں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے ذکر اخلاق احمد نے کہا کہ ’’جن مورتیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سرٹیفائیڈ نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہندو فریق جو دعویٰ کر رہا ہے وہ سراسر غلط ہے کیونکہ ایسی کوئی بات سروے رپورٹ میں نہیں کہی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں وہی سب باتیں ہیں جو پہلے ایڈوکیٹ کمیشن کی کارروائی میں آ چکی ہیں۔ گزشتہ کمیشن کے جائزے میں جو چیزیں سامنے آئی تھیں وہی چیزیں اس رپورٹ میں بھی سامنے آئی ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ اے ایس آئی کی رپورٹ میں ان چیزوں کا ذکر پیمائش کے ساتھ کیا گیا ہے۔
مسجد کے وکیل اخلاق احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہندو فریق کوئی ایکسپرٹ نہیں ہے جو کسی عمارت کو دیکھ کر بتا سکے کہ پتھر کتنا پرانا ہے اور اس میں استعمال ہونے والے ساز و سامان پہلے کہاں استعمال ہو چکے ہیں۔ یہ باتیں تو اے ایس آئی کی رپورٹ میں بھی نہیں ہے۔‘‘ رپورٹ کی تصویروں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے ذکر اخلاق احمد نے کہا کہ ’’جن مورتیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سرٹیفائیڈ نہیں ہیں۔‘‘
اخلاق احمد نے کہا، ’’ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین کے تمام دعوے غلط ہیں۔ مورتیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’’وہ مندر کے ملبے میں ملی ہونگی، کیونکہ مسجد کی ایک عمارت تھی جسے ’نارتھ یارڈ گیٹ‘کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس میں پانچ کرائے دار رہتے تھے، جو پتھروں کی مورتیاں بناتے تھے۔ بریکیڈنگ سے قبل یہ پورا علاقہ کھلا ہوا تھا۔ اس وقت ٹوٹی پھوٹی مورتیوں کو وہیں پر ملبے میں پھینک دیا جاتا تھا۔ وہیں کے ملبے میں ہی مورتیوں کو پا یا گیا ہے، وہ سرٹیفائیڈ نہیں ہیں۔‘‘