گوکل پوری کی جنتی مسجد کے ساتھ بھروسے اور اعتماد کے رشتے بھی ٹوٹ گئے
افروز عالم ساحل
نئی دہلی: دہلی کے گوکل پوری علاقے کی جنتی مسجد ویران ہے۔ باہر سی آر پی ایف کے جوانوں کا پہرہ ہے۔ مسجد کے اندر کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بلوائیوں نے اس مسجد کے اندر قائم ’مدرسہ عربیہ مدینة العلوم’ کو بھی نہیں چھوڑا۔ اںھوں نے مدرسے میں موجود کتابوں اور قرآن مجید کے نسخوں کو آگ لگادی۔
گوکل پوری مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر موہندر سنگھ بتاتے ہیں کہ جب 24 فروری کی شام یہاں کا ماحول خراب ہوا تو سب مسلم بھائی مسجد میں جمع ہو گئے۔ لیکن جب حالات زیادہ خراب ہوگئے تو انھوں نے یہاں سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ ’’حالانکہ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ یہاں سے نہ جائیں، لیکن ان کا جانا مجبوری بن گیا تھا۔‘‘
زیادہ تر لوگ گوکل پوری سے نکل کر کردم پوری چلے گئے تھے۔ پھر بلوائیوں نے گوکل پوری کے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ موہندر سنگھ بتاتے ہیں: ’’میرے گھر کے قریب ہی ایک گھر کو آگ کے حوالے کردیا گیا۔ لیکن جب علاقے کے لوگوں کو لگا کہ گھر کے اندر بڑا خاندان رہتا ہے، اس کے اندر کئی سلنڈر موجود ہوں گے اور اگر وہ پھٹے تو علاقے کے کئی دوسرے گھر بھی زد میں آجائیں گے، تو سب نے مل کر آگ پر کسی طرح قابو کیا۔ لیکن اس دوران میں مسجد کو نشانہ بنایا جا چکا تھا۔‘‘
اسی علاقے میں رہنے والے عمران بتاتے ہیں: ’’فسادیوں نے گوکل پوری علاقے میں صرف مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ مسجد کے اندر سلنڈر بلاسٹ کرکے اس کی دیواروں کو گرا دیا گیا۔ ان فسادیوں کی کوشش تو یہی تھی کہ اس مسجد کو گرا دیا جائے، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ فسادیوں نے پوری مسجد میں توڑپھوڑ کی۔ مدرسے کے بچوں کو پیٹا۔ قرآن اور دیگر کتابوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ بچوں کے سامان کو تہس نہس کردیا۔ مسجد کی دیواروں پر لگی ایک ایک چیز کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اور پھر مسجد کی چھت پر بھگوا جھنڈا لہرا دیا۔
ملحوظ رہے کہ جنتی مسجد کی پوری چھت دھویں سے کالی پڑ چکی ہے۔ فرش کے سنگ مرمر کے پتھر توڑ دیئے گئے ہیں۔ اس مسجد کے چھت پر اس تحریر کے لکھے جانے تک بھگوا جھنڈے لہرا رہے ہیں جن پر ’جئے شری رام‘ اور ’جئے ماتا دی‘ لکھا ہوا ہے۔ 1978 میں تعمیر شدہ جنتی مسجد اپنے علاقے کی عمدہ ترین عمارتوں میں سے ایک ہوا کرتی تھی اور نقش و نگار اور کاریگری کا عمدہ نمونہ تھی۔ اس مسجد کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے تھے۔
جنتی مسجد کے ٹوٹنے سے جہاں ایک عبادت گاہ کی حرمت پامال ہوئی ہے وہیں دو مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان محبت اور ہم آہنگی کے رشتے بھی پامال ہوئے ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے جسمانی زخم کچھ دنوں میں بھر جائیں گے، لیکن دلوں کے زخم اب شاید ہی بھر سکیں۔
گذشتہ کئی دہائیوں سے بنے بھروسے کی عمارت کو بلوائیوں نے توڑ دیا ہے۔ اسے دوبارہ تعمیر ہونے میں شاید عمریں لگ جائیں گی!