گوا: طلباء کے مسجد کے دورے پرہندو شدت پسند تنظیموں کا ہنگامہ، اسکول کے  پرنسپل کو معطل کر دیا گیا

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحت اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کی جانب سے دابو لیم میں نور مسجد میں  ورکشاب کا اہتمام کیا گیا تھا،  وشو ہندو پریشد نے ہنگامہ کرتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کرائی

پنجی ،نئی دہلی ،13 ستمبر :۔

گوا میں ایک انوکھا معاملہ پیش آیا ہے جہاں ایک اسکول کے طلباء کے ذریعہ مسجد کا دورہ کرنے پر اسکول کے پرنسپل کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں معطل کر دیا گیا۔یہ سب ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے ہنگامہ کے بعد کیا گیا۔اطلاع کے مطابق  کیشو اسمرتی ہائیر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل شنکر گاونکر کو ہندو تنظیموں کے الزامات کے بعد اسکول انتظامیہ نے معطل کر دیا ہے۔ تنظیموں  نے الزام عائد کیا تھا  کہ گاونکر نے طالب علموں کو مسجد جانے کی اجازت دی، جہاں انہیں مبینہ طور پر حجاب پہننے پر مجبور کیا گیا۔

یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب ایک مسلم تنظیم نے   طلباء کو تعلیمی ورکشاپ میں شرکت کی دعوت  دی اور اس سلسلے میں    اسکول  انتظامیہ سے ملاقات کی ۔ ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر شیلیش زنگڑے کے مطابق اسکول انتظامیہ سے اس واقعے کے حوالے سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔

دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اسکول کی چار لڑکیوں کو مسجد کے دورے کے دوران حجاب پہننے  کے لئے کہا گیاجس کو  انہوں نے مسترد کر دیا ۔

کیشو اسمرتی ہائر سیکنڈری اسکول کے چیئرمین  کورگانوکر نے صورتحال کی ابتدائی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے پرنسپل شنکر گاونکر کی معطلی کی تصدیق کی۔ کورگانوکر نے کہا کہ اسکول کو ایک مسلم تنظیم کی طرف سے ایک تعلیمی ورکشاپ میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ ورکشاپ میں 22 طلباء نے شرکت کی جن میں دو ہندو اور دو عیسائی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ایک سرکاری ہائیر سیکنڈری اسکول کے طلباء بھی شامل تھے۔ کچھ طلباء نے مسجد میں داخل ہونے پر اسکارف پہن رکھے تھے جو کہ ان کی اپنی روایات کے مطابق تھے۔

کورگانوکر نے کہا کہ طلباء کو سکارف پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر ایسا کرنے کا انتخاب کیا تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تنظیم نے "مسجد سب کے لیے کھلا” کے عنوان سے ایک پروگرام منعقد کیا تھا جس کا مقصد طلباء کے لیے ایک تعلیمی ورکشاپ تھا۔

الزامات اور تنازعہ کے جواب میں، کورگانوکر نے افسوس کا اظہار کیا اور مختلف گروپوں بشمول بجرنگ دل اور دیگر ہندو تنظیموں سے معافی مانگی، جن کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ پرنسپل کے ارادے بدنیتی پر مبنی نہیں تھے اور انہوں نے طلباء کو تعلیمی مقاصد کو ذہن میں رکھ کر ورکشاپ میں بھیجا تھا۔

پیر کو وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ارکان نے واسکو میں پولیس میں باضابطہ شکایت درج کرائی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اسکول کے پرنسپل "ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کر رہے ہیں”۔ ان کا موقف یہ تھا کہ زیر بحث ورکشاپ کا اہتمام کالعدم پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے منسلک ایک تنظیم کی دعوت پر کیا گیا تھا۔

پرنسپل شنکر گاونکر نے بتایا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مقصد سے اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہونے پر دبولم کی ایک مسجد کے دورے کا اہتمام کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ”اس کے علاوہ، بینا کے ایک سرکاری اسکول کے طلباء کو شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہمارے اسکول کے کل 21 طلباء، جن میں تین طالبات اور ایک ٹیچر شامل تھیں، نے مسجد کے دورے میں شرکت کی۔ دورے کے دوران، طلباء کو ان علاقوں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں جہاں مسجد کے اندر نماز ادا کی جاتی ہے اور انہیں داخلی اور خارجی راستوں سے واقف کرایا گیا۔انہوں نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ "کچھ طالب علموں نے رضاکارانہ طور پر اپنے سر کو احتراماً  علامتی  طور پر ڈھانپ رکھا تھا۔اس کے لئے کوئی زور و زبر دستی نہیں تھی۔

دی انڈین ایکسپریس  کی رپورٹ کے مطابق  گاونکر نے کہا کہ ماضی میں بھی، ہم نے طلباء کے مندروں، گرجا گھروں اور مساجد کے دوروں کا اہتمام کیا ہے۔ اسکول میں تمام مذاہب کے بچے پڑھتے ہیں۔ ایک اور اسکول کے کچھ طلباء بھی مسجد میں آئے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کیوں معطل کیا گیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے ریاستی صدر آصف حسین، اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او)، گوا زون کی پیرنٹ باڈی، جس نے ورکشاپ کا انعقاد کیا تھا  نے کہا، "مسجد   میں طلبہ کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔  فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور برادریوں کے درمیان بہتر تفہیم کے لیے ہمارے معمول کے اقدامات کے ایک حصے کے طور پر دابولیم میں نور مسجد میں اس طرح کی تقریبات ایک سالانہ خصوصیت رہی ہیں اور اکثر طلباء اپنی مرضی سے یہاں آتے ہیں۔ا سکول کے طلباء کو وہ علاقہ دکھایا گیا جہاں نماز ادا کی جاتی ہے اور انہیں مٹھائی کھلائی گئی۔ یہ تمام دعوے (مذہبی تبدیلی کے) بے بنیاد ہیں۔