گنگا جمنا اسکول تنازعہ:حکومت ہندوتو تنظیموں کے سامنے سر نگوں، احتجاج کے بعد پرنسپل اور ٹیچر گرفتار
نئی دہلی ،13جون :۔
مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں گنگا جمنا ہائیر سیکنڈری اسکول میں ہندو طالبات کو جبراً حجاب پہننانے کے الزام کے بعد شروع ہوا تنازعہ ختم نہیں ہو رہا ہے ۔اس تنازعہ کو ہندوتو تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت طور پر استعمال کیا ہے ۔اور حکومت بھی ہندو نواز تنظیموں کے سامنے سر ختم تسلیم کر چکی ہے۔ بالآخر دباؤ میں آ کر اسکول کے پرنسپل ،ٹیچراور اسکول کے دو دیگر عملے کو ہندوتوا گروپوں کے احتجاج کے ایک دن بعد گرفتار کر لیا گیا ۔
پولیس نے گرفتار افراد کی شناخت اسکول کی پرنسپل افشا شیخ کے نام سے کی۔ اس کے علاوہ ریاضی کی ٹیچر انس اطہر ،سیکورٹی گارڈ رستم علی کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔انہیں اتوار کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا پھر جیل بھیج دیا گیا۔
واضح رہے کہ ہندوتو تنظیموں نے الزام عائد کیا تھا کہ 10ویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں اسکول کی کامیابی کا جشن منانے والا ایک پوسٹر احاطے کے باہر لگایا گیا تھا، جس میں غیر مسلم طلبہ کو سروں پر اسکارف میں دکھایا گیا تھا۔ دائیں بازو کے گروپوں نے پہلے الزام لگایا تھا کہ لڑکیوں کو ہیڈ اسکارف پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔اس واقعے کے بعد، ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے 31 مئی کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، اور 2 جون کو، محکمہ تعلیم نے ناکافی انفراسٹرکچر کا حوالہ دیتے ہوئے اسکول کی شناخت منسوخ کردی۔
7 جون کو پولیس نے اسکول مینجمنٹ کمیٹی کے 11 ارکان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ ان پر ابتدائی طور پر آئی پی سی کی دفعہ 295 (کسی بھی طبقے کے افراد کے ذریعہ مقدس شے کو نقصان پہنچانا یا ناپاک کرنا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) کے ساتھ ساتھ جووینائل جسٹس (بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ) ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔