گروگرام: بنگالی بولنے والوں کو حراست میں لئے جانے سے خوف، سیکڑوں مزدور بنگال واپس جانے پر مجبور
متاثرین کا کہنا ہے کہ ہمیں صرف بنگالی بولنے پر گرفتار کیا جا رہا ہے کیابنگالی بولنا گناہ ہے؟

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،25 جولائی:۔
قومی راجدھانی دہلی اور این سی آر کے علاقے میں بنگالی بولنے والوں کے خلاف انتظامیہ نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کے تحت بڑی تعداد میں بنگالی بولنے والوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے ۔خاص طور پر بنگالی بولنے والے مسلم مزدورں کو ہدف بنا کر پریشان کیا جا رہا ہے متعدد ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جہاں بنگالی بولنے والے مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر گرفتار کیا جا رہا ہے ۔انتظامیہ کی غیرقانونی در اندازیوں کے نام پر بنگالی مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا معاملہ ہریانہ کے گرو گرام میں آیاہے جہاں حراست کے خوف سے سیکڑوں مسلمان گروگرام چھوڑکر بنگال اور آسام واپس لوٹ چکے ہیں ۔اب جو بچے ہیں ان میں خوف کا عالم ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گروگرام، ہریانہ میں مبینہ غیر قانونی دراندازیوں کے خلاف پولیس کی تازہ کارروائی نے بنگالی بولنے والی کمیونٹی میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اس مہم کے تحت بنگالی بولنے والے بہت سے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں کارکن خوف اور غیر یقینی کی وجہ سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مغربی بنگال لوٹ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گروگرام کے سیکٹر 49 کا بنگالی بازار اب خالی ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں رہنے والے 500 سے زیادہ بنگالی مہاجر مزدوروں میں سے زیادہ تر واپس چلے گئے ہیں۔ لوگوں میں خوف و ہراس اس طرح ہے کہ کچھ لوگ جلد از جلد فرار ہونے کے لیے گھر سے پیسے مانگ کر فلائٹ سے بنگال جا رہے ہیں۔
ایسے میں گروگرام میں صفائی، تعمیرات اور دیگر غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے کارکنوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔ اس کے علاوہ بعض معاملات میں بنگالی بولنے والوں کو بنگلہ دیش بھیجنے کے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں اور اس سے بنگالی بولنے والوں میں مختلف خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔
کارروائی کے بعد ویران پڑا علاقہ(دی وائر)
میڈیا رپورٹوں کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے گروگرام پولیس نے مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کے لیے ایک خصوصی مہم شروع کی ہے۔ اب تک، 250 سے زائد مشتبہ افراد، جن میں سے زیادہ تر بنگالی بولنے والے ہیں، کو اس مہم کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو کمیونٹی سینٹرز جیسی جگہوں پر رکھا گیا ہے جہاں ان کے دستاویزات کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ وہ مرکزی حکومت کی ہدایات پر عمل کر رہی ہے۔
دی وائر کی رپورٹ کے مغربی بنگال سے آئے اور کچرا چننے والوں کی کالونی میں رہنے والے ایک بنگال مسلمان نے کہا،’پولیس ہمیں صرف اس لیے اٹھاتی ہے کہ ہم بنگالی بولتے ہیں۔ کیا اس ملک میں بنگالی بولنا گناہ ہے؟ اور اگر یہ گناہ ہے تو ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات نے انہیں خوف کے سایے میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ‘ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ کوئی بھی ہمیں بنگلہ دیشی کہہ کر دھمکی دے سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘اگر حکومت چاہتی ہے کہ بنگالی بولنے والے این سی آر چھوڑ دیں، تو اسے واضح طور پر کہنا چاہیے،ہم پرامن طریقے سے مغربی بنگال واپس لوٹ جائیں گے۔ لیکن ہمارے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔