گجرات یونیورسٹی:غیر ملکی مسلم طلبا پر حملہ معاملےمیں اب تک 5 گرفتار
وزارت خارجہ نے معلومات طلب کی ہیں ،-9 مختلف پولس ٹیمیں معاملے کی جانچ کر رہی ہیں۔
احمد آباد، 18 مارچ :
گجرات یونیور سٹی میں غیر ملکی مسلم طلبا پرنماز پڑھنے پر حملے کے الزام میں میں حکومت نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ دنیا بھر میں اس واقعہ کی وجہ سے ملک کی شبیہ خراب ہوئی ہے جس پر وزات خارجہ نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتاری کا عمل تیز کر دیا ہے۔اس سلسلے میں وزارت خارجہ نے ریاستی حکومت سے معلومات مانگی ہے۔ احمد آباد پولیس کی 9 مختلف ٹیمیں معاملے کی تحقیقات میں مصروف ہیں۔ اس معاملے میں اتوار کو 2 اور پیر کو 3 ملزمان سمیت کل 5 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں ہتیش میواڈا، بھرت پٹیل، ساحل دودھکیا، کشتیج پانڈے اور جتیندر پٹیل شامل ہیں۔
ہفتے کی رات افغان طالب علم پر حملے کے واقعے کے بعد جی یو ہاسٹل کے باہر 10 پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے یہاں ایک بھی سیکورٹی گارڈ نہیں تھا۔ دوسری جانب کوآرڈینیٹر سیکیورٹی اور وارڈن کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی طلباء کو اگلے 3 دنوں کے لیے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
احمد آباد پولیس کمشنر جی ایس ملک نے کہا کہ گجرات یونیورسٹی میں 300 غیر ملکی طلباء پڑھتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ہاسٹل اے بلاک میں تقریباً 75 طلباء رہتے ہیں۔ ہفتہ کی رات 10.30 بجے طلباء نماز پڑھ رہے تھے، اسی دوران 20 سے 25 لوگ آئے اورانہوں نے نماز پڑھ رہے طلبا سے بحث کی اور مار پیٹ شروع کر دی۔ اس دوران شدت پسند ہندو گروپ کے نوجوانوں نے ہاسٹل میں کھڑی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ بھی کی ،حملے کے دوران انہوں نے جے شری رام کے نعرے لگائے اور طلبا کو بھدی بھدی گالیاں دیں ،مذہب پر نازیبا تبصرے بھی کیا ۔اس حملے میں دو طالب علم زخمی ہو گئے۔ ان میں ایک افغان طالب علم بھی ہے۔
اس واقعہ نے فوری طور پر سیاسی رخ اختیار کر لیا اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر حملے کی ویڈیو شیئر کرکے اس واقعہ کی سخت مذمت کی۔
اس واقعہ کو لے کر ریاستی حکومت بھی الرٹ موڈ میں آگئی۔ ریاستی وزیر داخلہ ہرش سنگھوی کی قیادت میں اعلیٰ حکام کی میٹنگ ہوئی اور سخت کارروائی کے احکامات دیے گئے۔ واقعے کی تحقیقات کے لیے 9 مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ تمام ٹیموں کو جے سی پی کرائم کے تحت تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔
متاثرہ طلباء میں ازبکستان، افغانستان، تاجکستان، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے طلباء شامل ہیں۔ ان پر حملہ کرنے کے علاوہ ان کے لیپ ٹاپ، موبائل فون، الماریوں اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
جی یو کی وائس چانسلر نیرجا گپتا نے کہا کہ مذہبی مقامات یا کمروں کو نماز یا دیگر مذہبی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ عوامی مقامات پر نماز یا دیگر مذہبی سرگرمیاں نہ کی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہر طرح کی کارروائی کی گئی ہے۔ عملہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ این آر آئی ہاسٹل دو سال سے تیار ہے، لیکن فائر سیفٹی این او سی نہ ہونے کی وجہ سے طلباء کو نہیں دیا جا سکا۔ اب دو دن پہلے این او سی مل گیا ہے۔ ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو وائرل ویڈیو کی تحقیقات کرے گی۔ یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ حملہ آور یونیورسٹی کے ہیں یا باہر سے آئے ہیں۔ لوک پال، لیگل اسسٹنٹ رجسٹرار اور کوآرڈینیٹر کمیٹی تمام ویڈیوز کی چھان بین کرے گی اور رپورٹ دے گی۔
از خود نوٹس کی اپیل مسترد کر دی گئی۔
اس معاملے پر وکیل کے آر کوستھی نے گجرات ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جج انیرودھ مچی کی بنچ کے سامنے جی یو میں غیر ملکی طلباء پر حملے کی از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم ہائی کورٹ نے اس سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ پولیس اس معاملے کی تحقیقات کرے گی۔ یہ عوامی مفاد کا مسئلہ نہیں ہے۔ تفتیش کرنا عدالت کا کام نہیں، تفتیش کرنا پولیس کا کام ہے۔ پولیس کمشنر نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کر کے تفتیش کی ہے۔ کئی ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔