گجرات میں روزگار کیلئے نوجوانوں کی بھیڑ میں دھکا مکی کا ویڈیو وائرل
سوشل میڈیا پر صارفین اور سیاسی رہنماؤں نے اس ویڈیو کو بی جے پی کے گجرات ماڈل کی حقیقی تصویر قرار دیا
نئی دہلی ،12 جولائی :۔
مرکز کی مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے ہمیشہ روزگار اور مہنگائی کے مدعے پر حملہ کیا جاتا رہا ہے۔اب بی جے پی کی حکمرانی اور نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات سے ایک ایسی بے روزگار نوجوانوں کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں روزگار کے لئے انٹر ویوکے لئے پہنچے نوجوانوں کی بھیڑ نظر آ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ ویڈیو گجرات کے بھروچ واقع ایک ہوٹل میں ملازمت کے لیے لگی بے روزگاروں کی بھیڑ کی ہے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ اس ویڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ بڑی تعداد میں نوجوان ایک ہوٹل میں ملازمت کے لیے پہنچے ہیں اور ان کے درمیان دھکا مکی بھی ہو رہی ہے۔ اسی دھکا مکی کے دوران وہاں پر لگا ایک ریلنگ گر جاتا ہے، جس سے کئی نوجوان بھی نیچے گر جاتے ہیں۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہاں دس لوگوں کی ریکوائر منٹ ہے اور چار سو بے روز گار نوجوان پہنچ گئے۔یہ گجرات کی بی جے پی حکومت کی پول کھولنے والی تصویر ہے۔
دریں اثنا لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے گجرات میں ملازمت کی امید لگائے پہنچے نوجوانوں کی اس بھیڑی کی ویڈیو وائرل ہونے پر الزام لگایا کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاست ’بے روزگاری کی بیماری‘ کا مرکز بن گئے ہیں۔ راہل گاندھی نے ’ایکس‘ پر اس تعلق سے لکھا ہے کہ ’’بے روزگاری کی بیماری ہندوستان میں وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے اور بی جے پی حکمراں ریاست اس بیماری کا ’ایپی سنٹر‘ بن گئے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ایک عام ملازمت کے لیے قطاروں میں دھکے کھاتا ’ہندوستان کا مستقبل‘ ہی نریندر مودی کے ’امرت کال‘ کی حقیقت ہے۔
اس ویڈیو سے متعلق کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ویڈیو بی جے پی کے ذریعہ گجرات کی عوام سے کیے گئے ’دھوکہ بازی ماڈل‘ کا ثبوت ہے۔
کھڑگے نے ایک پوسٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’سالانہ دو کروڑ ملازمتیں دینے کا بی جے پی کا وعدہ– پیپر لیک، بھرتی بدعنوانی، تعلیم مافیا، سرکاری ملازمتوں کو سالوں تک خالی رکھنا، ریزرو عہدوں کو قصداً نہیں بھرنا، اگنی ویر (اگنی پتھ) جیسے منصوبے لا کر ٹھیکے پر بھرتی کرنا اور کروڑوں نوجوانوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دینا… ان سبھی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔‘‘