گجرات :سو سال قدیم درگاہ   وقف ملکیت سے خارج،ہائی کورٹ نےوقف ملکیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا

نئی دہلی ،08 اپریل :۔

وقف ترمیمی قانون پر  پورے ملک میں ہنگامہ جاری ہے مسلم تنظیموں کیجانب سے اسے وقف املاک کے لئے خطرناک قرار دیا جا رہا ہے اور اسے وقف تحفظ کے نام پر وقف پر سرکاری قبضہ کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے جس پر ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔ دریں اثنا    گجرات ہائی کورٹ نے گجرات کی ایک 100 سال قدیم درگاہ کو وقف کی ملکیت ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ درگاہ راجکوٹ کے آنندپرا گاؤں میں نیشنل ہائیوے 27 پر موجود ہے۔ ریاستی حکومت نے ہائیوے کے ڈیولپمنٹ کے لیے اس درگاہ کو ہٹانے کا فیصلہ پہلے ہی لے رکھا ہے، اور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو درست ٹھہرایا ہے۔

یہ درگاہ صوفی سَنت حضرت جلال شاہ پیر کی ہے۔ جب اس درگاہ کو توڑنے سے متعلق گجرات حکومت نے فیصلہ کیا، تو کٹاریا عثمان غنی حاجی بھائی ٹرسٹ نے اس حکم کو گجرات ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر چیلنج پیش کر دیا۔ اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس انیردھ پی مائی نے ریاستی حکومت کے قدم کو درست ٹھہراتے ہوئے ٹرسٹ کی عرضی کو خارج کر دیا۔ عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ عرضی دہندہ ٹرسٹ ایک رجسٹرڈ وقف ہے، لیکن اس کے بعد بھی وہ اس جگہ پر اپنا مالکانہ حق ثابت نہیں کر پایا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ سرکاری زمین پر بنی درگاہ کو وقف کی ملکیت تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت نے نیشنل ہائیوے ایکٹ 1956 کے تحت صحیح طریقے سے زمین حاصل کی ہے۔

اپنے فیصلے میں گجرات ہائی کورٹ نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں یہ زمین سرکاری بتائی گئی ہے۔ ہائیوے کے ڈیولپمنٹ کے لیے حکومت نے درگاہ کو توڑنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ بالکل بھی غلط نہیں ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ اصول کے مطابق ہے۔ دراصل ٹرسٹ کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ درگاہ 100 سال قدیم ہے اور درگاہ وقف کی ملکیت کے طور پر درج ہے۔ ٹرسٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ درگاہ مخدوش ہو چکی ہے اور وہ اس کی مرمت کرنا چاہتا ہے۔ لیکن عدالت نے اسے غیر قانونی بتاتے ہوئے عرضی کو خارج کر دیا۔