گجرات :اسکول میں بیداری پروگرام کے  تحت طلباء کو نماز  پڑھوانےپر شدت پسند ہندو تنظیموں کا ہنگامہ

 اے بی وی پی اور وشو ہندو پریشد کے لوگوں نے اسکول ٹیچر کی پٹائی کی ، حکومت نے دیاتحقیقات کا حکم،اسکول انتظامیہ نے مانگی معافی

احمد آباد،نئی دہلی 04 اکتوبر:۔

ہماراملک مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے ،ہمیں اس ملک کے شہرے ہونے کی حیثیت سے اپنے علاوہ دیگر لوگوں کی ثقافت اور مذہب کے بارے میں علم رکھنا بھی ضروری ہے ،چنانچہ اسی بیداری پروگرام کے تحت ملک کے مختلف اسکولوں میں اس طرح کے پروگرام منعقد کئے جاتے رہے ہیں تاکہ طلباءان مذاہب کے سلسلے میں بھی سمجھیں اور جانیں لیکن دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کو ایسے پروگرام ایک آنکھ نہیں بھاتے ،گنیش چترتھی ،رکشا بندھن اور سرسوتی پوجا تو ہو سکتی ہے لیکن عید کے  تعلق سے نماز کے بارے میں طلباء کو بتانا ان کی نظر میں جرم ہے ۔

29 ستمبر کو احمد آباد کے ایک پرائیویٹ اسکول  میں ایسے ہی بیداری پروگرام کے تحت گنیش چترتھی پوجا کے علاوہ عید میلاد النبیؐ کے بارے میں بھی بچوں کو بتایا جا رہا تھا،پروگرام کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہین   دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں نے منگل کو ہندو بچوں کو جبراً نماز پڑھانے کا الزام لگا کر ہنگامہ کر دیا ۔اس دوران انہوں نے اسکول کے ایک ٹیچر کی پٹائی بھی کر دی۔ہنگامہ بڑھنے پر گجرات حکومت نے تحقیقات کا حکم جاری کر دیا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق معاملہ  احمد آباد کے گھاٹلوڈیا علاقے میں کالوریکس فیوچر اسکول میں 29 ستمبر کومنعقدہ پروگرام  کا ہے۔جہاں بچوں کو مختلف مذاہب کے تہواروں کے سلسلے میں معلومات فراہم کرنا تھا، اس کے تحت گنیش چترتھی،اونم اور عید کے تہوار کے بارے میں طلباء کو بتایا گیا۔

شدت پسندوں کے ہنگامے کے بعد اسکول انتظامیہ نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد طلباء کو مختلف مذاہب کے طریقوں سے آگاہ کرنا تھا اور کسی طالب علم کو نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔

تقریب کے ایک ویڈیو میں، جسے بعد میں اسکول کے فیس بک پیج سے ہٹا دیا گیا، پرائمری سیکشن کے ایک طالب علم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعد میں چار دیگر لوگ "لب پر آتی ہے دعا” گانے میں اس کے ساتھ شامل ہوئے۔

اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، بجرنگ دل اور دیگر دائیں بازو کی تنظیموں کے کارکنوں نے آج اسکول کے احاطے میں احتجاج کیا۔

ریاستی پرائمری ،سیکنڈری اور تعلیم بالغاں کے وزیر پرفل پنشیریا نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ اسکولوں میں اس طرح کے پروگرام منعقد کر کے ریاست کے پرامن ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اس پروگرام میں حصہ لینے والے طلباء کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ اصل میں کیا کر رہے تھے۔ یہ بالکل قابل قبول نہیں ہے”۔  انہوں نے مزید کہا  کہ  "ہم اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کے پیچھے ذہنیت اور نیت کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقات کریں گے اور پھر مناسب کارروائی کریں گے۔   تقریب کی ویڈیو میں موسیقی کا آلہ بجاتے نظر آنے والے ایک استاد کو منگل کو احتجاج کے دوران کارکنوں اور مشتعل والدین نے مارا پیٹا ۔

اسکول کی پرنسپل نرالی ڈگلی نے کہا کہ یہ اسکول کی روایت ہے کہ طلباء کو تہواروں سے پہلے مختلف مذاہب اور ان کے طریقوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ عید کے پیش نظر، ہم نے کلاس 2 کے طلباء کو تہوار کے بارے میں سکھانے کے لیے اس سرگرمی کا اہتمام کیا تھا۔ ہم تمام مذاہب کے تہواروں سے پہلے ایسی سرگرمیاں منعقد کرتے ہیں، بشمول سمواتسری اور گنیش چترتھی۔ کسی بھی طالب علم کو نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔” یہ صرف دو منٹ کی سرگرمی تھی، اور اس میں حصہ لینے والے طلباء نے اپنے والدین سے رضامندی لی تھی۔