گجرات:ہندو اکثریتی سوسائٹی میں مسلم خاتون کو سرکاری فلیٹ دیئے جانے پر ہندوؤں کا احتجاج

سرکاری ملازم 44 سالہ خاتون کو 2017 میں سی ایم ہاؤسنگ اسکیم کے تحت مکان ملا تھا ،تب سے ہندو اس کی مخالفت کر رہے ہیں

نئی دہلی ،14 جون :۔

گزشتہ دس برسوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو آندھی چلی ہے وہ اس حد تک پھیل چکی ہےکہ ہندو اکثریت اپنے علاقے میں مسلمانوں کو  بسایا جانا برداشت نہیں کر رہا ہے۔ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو کرایہ پر مکان نہ ملنا اور نہ دینے کی بات تو دور اب حکومت کی جانب سے الاٹ کئے جانے پر بھی ہندو اکثریت کو اعتراض ہے ۔انہیں  اپنے درمیان ایک مسلمان کا وجود ہرگز برداشت نہیں ہے۔انتہا تو تب ہو گئی جب گجرات کے شہر وڈودرا میں ایک سرکاری مسلم خاتون ملازم کو سی ایم ہاؤس اسکیم کے تحت مکان الاٹ کیا گیا تو ہندو اکثریت نے اس کی مخالفت شروع کر دی ۔صرف حکام سے تحریری شکایت ہی نہیں کی بلکہ اس کے لئے سڑکوں پر نکل کا باقاعدہ احتجاج شروع کر دیا۔ موٹناتھ سوسائٹی نے 461 ہندؤں کے درمیان ایک مسلم خاندان کو  مکان الاٹ کرنے کو آگ لگانے سے تعبیر کیا ہے۔اس سوسائٹی میں رہنے والے33 لوگوں نے ضلع کلکٹریٹ اور دیگر حکام کو تحریری شکایت درج کرائی ہے۔

رپورٹ کے مطابق  گجرات کے وڈودرہ شہر میں موٹناتھ سوسائٹی میں 2017 میں سی ایم ہاؤسنگ اسکیم کے تحت  ایک 44 سالہ مسلم خاتون کو مکان ملا، 461 گھر ہندوؤں کو دیئے گئےصرف ایک مکان مسلم خاتون کو دیا گیا۔  اب سوسائٹی کے ہندو اس مسلم خاتون کو مکان دیے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس معاشرے میں کوئی مسلمان نہیں رہے گا، صرف ہندو ہی رہیں گے، کوئی مسلمان آئے گا تو اس کی مخالفت ہوگی اور مکان دینے والے کی بھی مخالفت ہوگی۔

44 سالہ مسلم خاتون صنعت اور ہنر کی ترقی کی وزارت میں ملازم ہے اور اپنے والدین اور اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے، جو اس وقت 12 ویں جماعت کا طالب علم ہے، 2017 میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ایک گھر میں رہتی ہے۔ وہ ہندوؤں کی طرف سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایت کرتی رہی ہے۔ لیکن آج تک  اس کی کوئی سنوائی نہیں ہوئی ۔اب ایک بار پھر سوسائٹی کے لوگ سڑکوں پر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مسلم خاتون کی مخالفت کا یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے جب سے یہ مکان الاٹ کیا گیا ہے۔خاتون کا کہنا ہے کہ یہ مخالفت سب سے پہلے 2020 میں شروع ہوئی تھی جب یہاں کے باشندوں نے وزیر اعلیٰ آفس (سی ایم او) کو خط لکھ کر ان کے گھر کے الاٹ منٹ کو نا منظور کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حالانکہ ہرنی پولیس اسٹیشن نے تب دونوں فریق کو سمجھا کر معاملہ رفع دفع کر دیا تھا۔اب اسی معاملے پر پھر گزشتہ دس جون سے احتجاج شروع ہو گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق خاتون نے بتایا کہ میں وڈودرہ کے ایک ملے جلےعلاقے میں پلی بڑھی ہوں،میرا خواب تھا کہ میرا بیٹا ایک بہتر علاقے میں بڑا ہو لیکن اب میرا خواب ٹوٹ رہا ہے۔مجھے تقریبا چھ سال ہو گئے ہیں اور میرے سامنے جو مخالفت ہے اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔اب میرا بیٹا برہویں کا طالب علم ہے،اس امتیازی سلوک کو سمجھنے کے لئے وہ کافی ہےیہ تعصب اسے ذہنی طور پر متاثر کرے گا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ صرف اس احتجاج کی وجہ سے اپنی محنت سے کمائی گئی جائیداد فروخت نہیں کرنا چاہتی۔ میں انتظار کروں گی۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اس نے وی ایم سی کو   مینٹیننس بھی دیا ہے۔

واضح رہے کہ موٹ ناتھ ریزیڈینسی کو آپریٹیو ہاؤسنگ سروسز سوسائٹی لمیٹیڈ کے میمو رینڈم میں لکھا ہے کہ وی ایم سی نے مارچ2019 میں ایک مسلم خاتون کو مکان نمبر کے204 الاٹ کیا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہرنی علاقہ ایک ہندو اکثریتی پر امن علاقہ ہ اور تقریبا چار کلو میٹر کے دائرے میں کوئی مسلمانوں کی بستی نہیں ہے۔ وی ایم سی کا یہ الاٹمنٹ 461 خاندانوں کی پر امن زندگی میں آگ لگانے جیسا ہے۔