گاندھی،گوڈسے  کے درمیان انتخاب پر سابق جسٹس گانگولی کا متنازعہ  رائے پر ہنگامہ

نئی دہلی ،27 مارچ :۔

کلکتہ ہائی کورٹ کے سابق جج ابھیجیت  گانگولی کورٹ کو الوداع کہہ کر بی جے پی میں لوک سبھا انتخابات کے امیدوار ہیں لیکن انہوں نے امیدواری ملتے ہیں اپنے رنگ دکھانے شروع کر دیئے ہیں ۔وہ ایک ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں ۔لیکن سیاست میں آنے کے بعد جس پارٹی سے جڑے ہیں اس کے نظریات پر صد فیصد کھرا اترنے کی پوری کوشش میں مصروف ہیں ۔حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی مہاتما گاندھی کا نام لیتے تھکتے نہیں ہیں اور تمام اپنے کاموں کو گاندھی کے نام پر ہی جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی پارٹی کے متعدد ارکان نے گاندھی کی توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔سابق جج گانگولی کے نظریات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایسے ہی  اپنے ایک بیان کو لے کر تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ گاندھی اور گوڈسے میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ اس بیان کے بعد کانگریس نے جسٹس گانگولی پر تنقید کی ہے اور بی جے پی سے لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنا امیدوار واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس  گانگولی   نے ایک بنگالی چینل سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ مہاتما گاندھی اور ناتھورام گوڈسے میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ جسٹس گانگولی   نے کہا کہ انہیں گاندھی کے قتل کے لیے گوڈسے کے دلائل کو سمجھنا ہوگا۔انہوں نے کہا تھا کہ قانونی پیشے سے ہونے کی وجہ سے میرے لیے کہانی کے دوسرے رخ کو سمجھنا ضروری ہے۔ مجھے ان کی (گوڈسے) تحریریں پڑھنی ہیں اور سمجھنا ہے کہ انہیں مہاتما گاندھی کو کیوں مارنا پڑا؟ تب تک میں گاندھی اور گوڈسے میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرسکتا۔

ان کے کے بیان پر کانگریس برہم ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ یہ افسوسناک سے بھی بدتر ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک سابق جج نے کہا کہ وہ گاندھی اور گوڈسے میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور جس شخص نے گاندھی کی وراثت کو غصب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس کی امیدواری کو فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔ تاہم گانگولی نے مہاتما گاندھی کے قتل کی مذمت کی تھی۔