کیرالہ ہائی کورٹ کا "دی کیرالہ اسٹوری” کی ریلیز پر روک لگانے سے انکار

 فلم سازوں نے 32 ہزار خواتین کے آئی ایس جوائن کرنے کے دعوے کو سوشل میڈیا سے ہٹانے کے لئے کہا

 

نئی دہلی ،05 مئی :۔

مسلمان اور اسلام کے خلاف ہندوتو پروپیگنڈے پر مبنی فلم دی کیرالہ اسٹوری  آج سنیما گھروں میں ریلیز ہو چکی ہے ۔دریں اثنا کیرالہ ہائی کورٹ نے اس فلم کی ریلیز پر پابندی عائد کرنے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے پابندی عائد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔تاہم جسٹس این ناگریش اور جسٹس صوفی تھامس پر مشتمل ڈویژن بنچ نے پروڈیوسر کی عرضی کو ریکارڈ کیا کہ فلم کا ٹیزر، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کیرالہ کی 32,000 سے زائد خواتین کو آئی ایس آئی ایس میں بھرتی کیا گیا ، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ہٹا دیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق عدالت نے فلم کی ریلیز پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔عدالت نے تسلیم کیا کہ فلم واضح طور پر کہتی ہے کہ یہ   "سچے واقعات سے متاثر” ہے۔ مزید برآں، عدالت نے نوٹ کیا کہ سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) نے فلم کو عوام کے دیکھنے کی منظوری دی ہے۔ فلم کے ٹریلر کو دیکھنے کے بعد، عدالت نے کہا کہ کسی مخصوص کمیونٹی کے لیے قابل اعتراض  اس میں کچھ نہیں ملا۔ مزید برآں، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں میں سے کسی نے بھی فلم نہیں دیکھی  ہے،

رپورٹ کے مطابق  جسٹس ناگریش نے زبانی طور پر کہا کہ”ایک چیز ہے جسے آزادی اظہار اور اظہار خیال کہا جاتا ہے۔ ان کے پاس فنکارانہ آزادی ہے، ہمیں اس میں بھی توازن رکھنا ہوگا” ۔

انہوں نے کہا کہ فلم میں ایسی کیا چیز ہے جو اسلام کے خلاف ہے؟ کسی مذہب کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے، بلکہ صرف آئی ایس آئی ایس تنظیم کے خلاف ہے،  ۔  جسٹس ناگریش  نے کہا کہ "یہ افسانہ ہے۔ یہاں کوئی بھوت یا ویمپائر نہیں ہیں، لیکن فلموں کی ایک بڑی تعداد اسی کو دکھاتی ہے۔ ایسی کئی فلمیں ہیں جن میں ہندو سنیاسیوں کو اسمگلر اور ریپسٹ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ کوئی کچھ نہیں کہتا۔ آپ نے ہندی اور ملیالم میں ایسی فلمیں دیکھی ہوں گی۔ کیرالہ میں ہم بہت سیکولر ہیں۔ ایک فلم تھی جس میں ایک پادری مورتی پر تھوکتا تھا اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا  ۔ کیا آپ اس کا تصور کر سکتے  ہیں؟ یہ ایک مشہور ایوارڈ یافتہ فلم ہے۔

عرضی گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے کہا کہ "آج فلم کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر کتابوں سے کہیں زیادہ ہے۔ "اس سے عوامی امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ دوے  نے مزید کہا کہ "میں بھی آزادی کا ایک مضبوط حامی ہوں، لیکن اگر یہ آزادی معصوم لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھولنے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کا خدشہ ہے، تو ایسی آزادی کو کم کیا جانا چاہیے۔”

انہوں نے درخواست کی کہ”براہ کرم دیکھیں کہ افسانے کا مقصد کیا ہے۔ فکشن کا مقصد مسلم کمیونٹی کو ولن کے طور پر پیش کرنا ہے۔  شاز و نادر واقعات کو سچ کی طرح نہیں بنایا جا سکتا اور اسے فلم نہیں بنایا جا سکتا۔

جسٹس ناگریش نے فلم کے پروڈیوسر کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈویڈ روی کدم سے پوچھا کہ انہیں 32,000 خواتین کے مذہب تبدیل کرنے کا اعداد و شمار کہاں سے ملا؟ قدم نے جواب دیا کہ نمبر ان معلومات پر مبنی ہیں جو بنانے والوں کو ملی ہیں۔ تاہم، انہوں نے ٹیزر کو ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی۔

فلم میں 32,000 آئی ایس آئی ایس  بھرتیوں کے دعوے کو کئی مسلم گروپوں اور کیرالہ میں حکمراں اور اپوزیشن دونوں جماعتوں نے چیلنج کیا تھا۔انہوں نے اس فلم کو ہندتو پروپیگنڈہ اور اسلام فوبیا قرار دیا ہے ۔نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا بلکہ اس فلم  کے ذریعہ کیرالہ ریاست کو بھی بدنام کرنے کی سازش کی گئی ہے  ۔