کیا بھارت واقعی اسلامو فوبیا کے خلاف ہے ؟
اقوام متحدہ میں 15 مارچ عالمی یوم انسداد اسلامو فوبیا پر بھارت کے مستقل سفیر پی ہریش نے اسلامو فوبیا کی مذمت کی

نئی دہلی ،16 مارچ (دعوت ویب ڈیسک)
بھارت دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں مذہبی نسلی بنیاد پر مسلمانوں کو سب سے زیادہ امتیازی برتاؤ اور منظم تشدد کا سامنا ہے ۔بھارت کو ان ملکوں کی فہرست میں بھی رکھا گیا ہے جہاں بحیثیت اقلیت مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کے خطرات سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ملک میں ماب لنچنگ ، پولیس حراست میں موت ، معاشی اور سماجی بائکاٹ ، مسلم گھروں اور مسجدوں کی مسماری ، مساجد کے خلاف تادیبی کارروائیاں اور عوامی سطح پر امتیازی سلوک اب روز کا معمول بن چکا ہے ۔ عالمی سطح کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے کئی موقعوں پر مسلمانوں کے خلاف ہونے والی پرتشدد کارروائیوں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ خود اندرون ملک مسلمانوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں ۔شہریت ترمیمی قانون ، تین طلاق ، یکساں سول کوڈ اور وقف ترمیمی بل ایسے اقدام ہیں جو براہ راست مسلمانوں کو ملک کے آئینی اور بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں ۔اندرون ملک مسلمانوں کے حقوق ختم کئے جا رہے ہیں۔مگر بیرون ملک انسانی حقوق کا ڈنکا پیٹا جا رہا ہے۔
صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو بھارت میں اسلامو فوبیا اپنی بدترین شکل میں سرگرم عمل ہے، جس کا مظاہرہ آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔لیکن مودی حکومت صورت حال میں بہتری لانے کے بجائے عالمی پلیٹ فارموں پر اپنی ساکھ چمکانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے ۔15 مارچ کو’ عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا ‘کے موقع پر اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل سفیر پی ہریش نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقد ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت تنوع اور تکثیریت کی سرزمین ہے۔ یہاں دنیا کے تقریباً تمام بڑے مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں اور یہ ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت جیسے چار بڑے مذاہب کی جنم بھومی بھی ہے۔ بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادیوں میں شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذہبی امتیاز، نفرت اور تشدد سے پاک دنیا کو فروغ دینا بھارت کی صدیوں پرانی روایت رہی ہے۔
"ہم اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف مذہبی عدم برداشت کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم، یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ مذہبی امتیاز ایک وسیع مسئلہ ہے جو تمام مذاہب کے پیروکاروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سفیر پی ہریش نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے اور ہولی کے تہوار کے موقع پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عبادت گاہوں اور مذہبی برادریوں پر حملوں میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے، جسے روکنے کے لیے تمام ممالک کو مساوی احترام کے اصول کی بنیاد پر مل کر کام کرنا ہوگا ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد دراصل مذہبی امتیازات کے خلاف ایک وسیع تر جدوجہد کا حصہ ہے۔ "یہ ضروری ہے کہ ہم ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کریں جہاں ہر فرد، قطع نظر اس کے عقیدے کے ، وقار، تحفظ اور احترام کے ساتھ زندگی گزار سکے۔”
اس موقع پر اقوام متحدہ میں بھارت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف مذہبی عدم برداشت کے واقعات کی مذمت کرتا ہے۔ تاہم یہ بھی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ مذہبی امتیاز ایک وسیع مسئلہ ہے جو تمام مذاہب کے پیروکاروں کو متاثر کرتا ہے۔پی ہریش نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ممالک کو اپنے شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھنا چاہیے اور ایسی پالیسیوں سے گریز کرنا چاہیے جو مذہبی امتیازات کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی نظام کو ایسے تعصبات یا نفرت انگیز تصورات کو فروغ دینے سے باز رکھنا چاہیے جو بین المذاہب منافرت کو ہوا دے سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 60 اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کے رکن ممالک کی جانب سے پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی، جس کے تحت 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو کسی بھی مذہب، قومیت، تہذیب یا نسل سے منسلک نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس میں عالمی سطح پر رواداری اور امن کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے مزید مضبوط اقدامات کرنے پر زور دیا گیا، جو انسانی حقوق اور مذاہب و عقائد کے تنوع کے احترام پر مبنی ہو۔اقوام متحدہ نے عبادت گاہوں، مذہبی مقامات اور مقدس مقامات پر حملوں کی شدید مذمت کی، جنہیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔