کیامسلمانوں کو ہندو مذہبی بورڈز میں شامل کیا جائے گا؟
متنازعہ وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کا مرکز سے سخت سوال،عبوری راحت کا اشارہ، عدالت عظمیٰ نے سماعت کے دوران بعض دفعات کے آئینی جواز پر تشویش کا اظہار کیا، وقف بائی یوزر املاک اور وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت پر بھی اعتراض

نئی دہلی،16 اپریل :۔
انتہائی متنازعہ وقف ترمیمی قانون پر مسلم تنظیموں کے اعتراض اور احتجاج کے درمیان آج سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی ۔ سپریم کورٹ نے بدھ کو سماعت کے دورا ن وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی بعض دفعات کے آئینی جواز پر سنگین تشویش کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار، اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے مشاہدہ کیا کہ ترمیم کے ذریعے لائی گئی اہم تبدیلیوں کے مذہبی آزادیوں اور عدالتی اختیار پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے سخت سوالات بھی کیے۔ عدالت نے خاص طور پر وقف بائی یوزر املاک اور مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت سے متعلق دفعات پر اعتراض ظاہر کیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے واضح طور پر کہا کہ وقف بورڈ میں صرف مسلمان ارکان ہونے چاہییں، صرف وہ افسران جو عہدے کے لحاظ سے بورڈ میں شامل ہوں، اس استثنا کے تحت ہوں گے۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ اگر وہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو جگہ دینا چاہتی ہے، تو کیا اسی منطق کے تحت مسلمانوں کو ہندو مذہبی بورڈز میں شامل کیا جائے گا؟
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اس کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی کسی بورڈ کی میعاد ختم نہیں ہوئی ہے اور صرف عوامی مفاد کی عرضیوں کی بنیاد پر عدالت کو ایسے احکامات جاری نہیں کرنے چاہییں۔ عدالت نے بھی اس پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کیا جائے گا، کیونکہ کوئی وقف بورڈ بذاتِ خود عدالت سے رجوع نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ اس اہم قانون پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے آغاز میں ہی درخواست گزاروں سے دو نکات پر وضاحت طلب کی، اول، کیا یہ معاملہ سپریم کورٹ کی بجائے ہائی کورٹ بھیجا جانا چاہیے؟ دوم، درخواست گزار کن نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں؟
درخواست گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے دلیل دی کہ نیا قانون آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو ہر مذہب کو اپنے مذہبی امور خود چلانے کی آزادی دیتا ہے۔
سبل نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ ترمیمی قانون میں ضلع مجسٹریٹ (کلیکٹر) کو جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ غیر آئینی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کلیکٹر حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے اور اگر وہ انصاف کرنے کا اختیار حاصل کر لے تو یہ غیر جانبداری کے اصول کے خلاف ہے۔
عدالت نے آخر میں یہ عندیہ دیا کہ وہ اس مقدمے میں دو عبوری احکامات جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ایک، وقف بورڈ میں تمام ارکان مسلمان ہوں گے، صرف عہدے کے مطابق شامل افسران کے علاوہ؛ دوسرا، جب تک کیس زیرِ سماعت ہے، حکومت ایسی کوئی کارروائی نہ کرے جس سے بائی یوزر وقف جائیدادوں کو منسوخ کیا جا سکے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں اگلی سماعت 17 اپریل بروز جمعرات دوپہر 2 بجے ہوگی۔