کچھ طاقتیں مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتی ہیں تاکہ وہ مشتعل ہوں اور ملک میں بدامنی پھیلے

  جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے بلڈوزر کارروائی اور اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے لاف کارروائی کا مطالبہ کیا   

نئی دہلی،07 ستمبر :۔

’’ ملک میں نفرت انگیز جرائم میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ کچھ طاقتیں مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتی ہیں تاکہ وہ مشتعل ہوں اور ملک میں بدامنی پھیلے۔ افسوس کی بات ہے کہ سماج دشمن عناصر بلا خوف و خطر جرائم انجام دے رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں پولیس اور سیاسی سرپرستوں کی حمایت اور تحفظ حاصل ہے، لہٰذا انہیں نہ عدالت سے سزا کا خوف ہے اور نہ ہی گرفتاری کا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ ایسے سماج دشمن عناصر کے خلاف فوری کارروائی کریں اور گنہگاروں کو سزا دلوائیں‘‘۔  مذکورہ خیالات کا اظہار آج نئی دہلی کے ابو الفضل واقع جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے کیا ۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری شفیع مدنی نے بھی خطاب کیا۔ نائب امیر کی بریفنگ کے بعد موجود صحافیوں نے متعدد سوالات کئے جس کا ذمہ داران جماعت نے تسلی بخش جواب دیا۔

پریس کانفرنس کے دوران پروفیسر سلیم نے  بلڈوزر جسٹس اور ظلم پر بھی کھل کر بات کی اورملزمین کی املاک کو بلڈوزر کے ذریعے تباہ کرنے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ یہ ایک غیر قانونی عمل ہے جس کا رجحان ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جائیدادیں یا مکانات کی مسماری کا نشانہ زیادہ تر مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو ہی بنایا جاتا ہے اور بڑی چالاکی  کے ساتھ اس غیر جمہوری، آمرانہ اور غیرانسانی طریقے کو ’’ بلڈوزر انصاف‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ شکر ہے کہ اس غیر قانونی مسماری کے خلاف ایک عرضی پر جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشوا ناتھن کی سپریم کورٹ بنچ کا قابل ستائش ریمارکس آیا اور اس غیر قانونی انہدام پر روک لگانے کی طرف پیش رفت ہوئی۔

سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ’’ ملکیتیں صرف اس لیے منہدم نہیں کی جا سکتیں کہ ان کا تعلق کسی ایسے شخص سے ہے جس پر جرم کا الزام ہے‘‘۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر پورے ملک میں رہنما خطوط جاری کرے گا اور تمام متعلقہ حکام سپریم کورٹ کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں گے‘‘۔ نفرت انگیز تقاریر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ مہاراشٹر میں ایک مذہبی رہنما نے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف قابل اعتراض بیان دیا اور حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی رہنما نے بھی اشتعال انگیز باتیں کہی۔ اس طرح کے بیانات تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات کا ماحول پیدا کرنے کی غرض سے دیئے جاتے ہیں جو ملک کے امن و امان کو خراب اور مسلمانوں کو جذباتی ٹھیس پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں ، لہٰذا کورٹ کو چاہئے کہ وہ ان کے خلاف از خود نوٹس لے اور عدالت کے حکم پر سب کو عمل درآمد کرنے کا پابند کرے‘‘۔

مرکزی سکریٹری شفیع مدنی صاحب نے آسام کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ فارنر ٹربیونل‘ کی جانب سے 28 بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیئے جانے کے بعد  ٹرانزٹ کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ یہ ان کے بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جن لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے وہ اپنے خلاف چل رہے مقدمے تک سے واقف نہیں تھے۔ ٹربیونل کا یہ فیصلہ مسلم کمیونٹی بالخصوص ’ میاں بنگالی مسلمانوں ‘ کو غیر مناسب طریقے پر نشانہ بنانے کی شہادت دے رہا ہے۔ ’ ٓآسام این آر سی‘ کے ریکارڈ میں غیر ملکی قرار دیئے گئے لوگوں میں تقریبا دو تہائی ہندو اور ایک تہائی مسلمان ہیں۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ انتہائی غیر انسانی رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ جماعت، ان تمام گرفتار شدگان کی فوری رہائی اور ’’ فارنر ٹریبونل‘‘ کے فیصلے پر روک لگانے کا مطالبہ کرتی ہے۔

جماعت ’ این آر سی ‘ کے غلط استعمال کی وجہ سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہے اور ان کی ہر طرح کی قانونی اوراخلاقی مدد کے لیے تیار ہے۔  ہمیں سول سوسائٹی اور میڈیا سے پوری توقع ہے کہ وہ اس حساس مسئلے کے بارے میں عوام میں آگاہی لانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صورت حال کا فوری جائزہ لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی بھی شخص کو بلا جواز  گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ تمام شہریوں کے وقار اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔