کم عمری کی شادی کے تعلق سے ہیمنت بسو سرما کا دعویٰ بے بنیاد ،مسلم اکثریتی ریاستوں میں شرح سب سے کم
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کم عمری کی شادی کی شرح مسلم اکثریتی جموں و کشمیر اور لکشدیپ میں سب سے کم ہے
نئی دہل،23فروری :۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ماضی میں کم عمری کی شادی کا بہت رواج تھا اور یہ رواج اگر چہ قانونی طور پر درست نہیں ہے مگر مختلف مذاہب اور برادریوں کے درمیان کم عمری کی شادی خاص طور پر لڑکیوں کی شادی کا رواج اب بھی قائم ہے ۔مگر قانونی طور پر انتظامیہ کے سخت رویے اور مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے بیداری کے بعد اب ختم ہو رہا ہے ۔آسام حکومت کی جانب سے بچپن یا کم عمری کی شادی کے خلاف گزشتہ دنوں سے جاری کریک ڈاؤن تنازعہ میں رہا۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسو سرما نے کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں کو گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کرکے بین الاقوامی سرخیوں میں جگہ بنائی ہے۔ اس پورے متنازعہ واقعے میں گرفتار ہونے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی بیویوں کو شادی کے بعد 18 سال یا اس سے زیادہ ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ ہندوستان میں شادی کی قانونی عمر مردوں کے لیے 21 سال اور خواتین کے لیے 18 سال ہے اور اس کی خلاف ورزی قابل سزا جرم ہے۔
کم عمری کی شادی کے خلاف قوانین کے باوجود، بھارت بھر میں مختلف مذہبی برادریوں، خاص طور پر دیہی اور شہری علاقوں میں غریب لوگوں کے ذریعے بچوں کی شادی کا رواج جاری ہے۔حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ایسی شادیوں کی تعداد بہت کم نہیں ہے۔ کچھ ریاستوں میں، بچوں کی شادیاں سالانہ شادیوں میں 40 فیصد سے زیادہ ہوتی ہیں۔
آسام کے علاوہ بہار اور مغربی بنگال ان ریاستوں میں شامل ہیں جہاں کم عمری کی شادی کی شرح سب سے زیادہ ہے کیونکہ ان ریاستوں کی ایک بڑی آبادی غریب ہے۔تاہم، تقریباً ایک دہائی قبل کانگریس چھوڑنے کے بعد کٹر ہندوتوا لیڈر بننے والے ہیمنت سرما نے ریاست میں بچپن کی شادی پر ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ صرف مسلم مرد ہی کم عمر لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں اور شادی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
آسام پولیس، جس نے کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں کو گرفتار کرنے کی مہم شروع کی ہے، وزیر اعلیٰ کے بیان کو ثابت کرنے کے لیے مذہب کی بنیاد پر گرفتاریوں کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔لیکن مرکزی دھارے کے میڈیا کی طرف سے شائع ہونے والی زیادہ تر تصاویر میں مسلمان مردوں کو پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ کم عمری کی شادی کا قصوروار صرف مسلم کمیونٹی کو ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم، آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ شادی کے موجودہ قوانین کے تحت لاگو عمر کی حد کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار ہونے والوں میں سے تقریباً 45 فیصد ہندو ہیں۔ لیکن جس طرح سے بی جے پی لیڈران، خاص کر وزیر اعلیٰ ہیمنت بسو سرما نے بیانات دیئے ہیں، یہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی نیت سے دیا گیا بیان لگتا ہے۔
لیکن مسلمانوں میں بچپن کی شادیوں اور انہیں اسلام سے جوڑنے کے بارے میں سرما یا کسی دوسرے سیاستداں کے دعوے حقیقت کو جھٹلاتے ہیں۔لیکن ہیمنت بسوا سرما کے دعوے قومی صحت اور خاندانی سروے (این ایچ ایف سی) کے ذریعہ 2019-21 کے دوران دیے گئے بچوں کی شادیوں کے فیصد کے اعداد و شمار سے بے نقاب ہوتے ہیں، وزارت صحت اور خاندانی بہبود، حکومت ہند کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی سروے (NHFS) نے مذہب کی بنیاد پر ڈیٹا فراہم نہیں کیا ہے۔ تاہم اس تحقیق کے مطابق ملک میں ہونے والی کل شادیوں میں سے 23 فیصد سے زیادہ میں نئی شادی شدہ خواتین کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔مزید برآں، مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی شادیاں صرف خواتین تک محدود نہیں ہیں۔ وہ مردوں میں بھی کم و بیش پائے جاتے ہیں۔ سروے کے مطابق مطالعے کے دورانیہ میں پایا گیا کہ قومی سطح پر مردوں میں کم عمری کی شادی کا تناسب 17 فیصد سے زیادہ ہے۔
وزارت صحت کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ موجودہ قانون کے مطابق ملک بھر میں شادی کے لیے کم سے کم عمر کی خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد کی شادی کی گئی۔ایسی شادیوں میں سے 27 فیصد دیہی علاقوں میں ہوئیں، 14.7 فیصد لڑکیوں کی کم عمری کی شادیاں شہری علاقوں میں ہوئیں، جہاں شادی کی عمر کے بارے میں بیداری زیادہ ہے۔
نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی سروے (NHFS) 2019-20 )کے سروے کے مطابق، مردوں کے لیے کم عمری کی شادی کی قومی اوسط 17.7 فیصد، دیہی علاقوں میں 21 فیصد اور شہروں میں 11 فیصد سے زیادہ تھی۔ حکومت ہند کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کم عمری میں مردوں کی شادی کے کیس بھی ملک بھر میں قابل ذکر تعداد میں دیکھے جاتے ہیں۔
اگرچہ سروے میں کم عمری کی شادی کی وجوہات کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم صحت سے متعلق آگاہی کے پروگراموں سے وابستہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کی کم عمری کی شادی کی بڑی وجہ دلہنوں اور ان کے والدین کی کمزور سماجی حیثیت، معاشی حیثیت اور تعلیم کی کمی. مردوں کی کم عمری کی شادی کے معاملے میں، کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ سماجی اور ثقافتی وجوہات کی بنا پر ہے۔
تاہم ریاستوں کے اعداد و شمار بہت چونکا دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر، مسلم اکثریتی علاقوں – جموں و کشمیر، اور لکشدیپ – میں ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے خواتین اور مردوں کے درمیان کم عمری کی شادیوں کا تناسب سب سے کم ہے۔سکھوں کی اکثریت والے پنجاب میں بھی کم عمری کی شادیوں کی تعداد مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے بہت کم ہے۔اسی طرح، عیسائی اکثریت والے ناگالینڈ اور شمال مشرق میں میزورم ایسی ریاستیں ہیں جہاں مردوں اور عورتوں کے درمیان کم عمری کی شادیوں کا تناسب بہت کم ہے۔
اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ کم عمری کی شادی میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔ہیمنت بسو سرما کا مسلمانوں کے تعلق سے بیان در اصل سیاسی بیان ہے اور رائے دہندگان کو سادھنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو خاص طور پر ٹارگیٹ کیا ہے ۔چونکہ اسمبلی اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات قریب آ رہے ہیں اس لئے وہ اپنی پارٹی کے لیے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے شمال مشرقی ریاستوں میں سیاسی پولرائزیشن کی تلاش میں ایسے بیانا ت دے رہے ہیں ۔تاکہ اپنے رائے دہندگان کو یہ باور کرا سکیں کی کم عمری کی شادی مسلمانوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اسلام مذہب کی وجہ سے ہے، تو کشمیر اور لکش دیپ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کم عمری کی شادی کے اعداد و شمار بہت زیادہ ہونے چاہیے تھے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔
نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی سروے کے اعداد و شمار آسام کے وزیر اعلیٰ کے اس سیاسی بیان بازی کی تردید کرتے ہیں کہ صرف مسلمان ہی بچپن کی شادی کے قصوروار ہیں۔ غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر انہوں نے شادی کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
اس کے برعکس آندھرا پردیش، انڈمان اور نکوبار جزائر، مغربی بنگال، آسام، تریپورہ، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ، اروناچل پردیش، میگھالیہ، منی پور، اڈیشہ، اتر پردیش، قومی دارالحکومت علاقہ دہلی، ہریانہ، تمل ناڈو، کرناٹک ، دادر اور نگر حویلی میں کم عمری کی شادی کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔ یہاں تک کہ صنعتی ریاست گجرات، جو مہاراشٹر کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، بچپن کی شادی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مہاراشٹر میں خواتین اور مردوں میں کم عمری کی شادی کی شرح بھی زیادہ ہےجب کہ یہ دونوں شہر کافی ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ خیال کئے جاتے ہیں۔
اسلام کم عمری کی شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا
سرما اور ان کے بی جے پی کے اتحادی اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ اسلام بچپن کی شادی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، اسلام بچپن کی شادی پر مکمل پابندی لگاتا ہے، شادی یا ‘نکاح’ کے لیے عورت کی رضامندی کو لازمی قرار دیتا ہے۔اسلامی قانون کے مطابق اگر عورت کی رضامندی نہ لی جائے تو نکاح درست نہیں۔ اور یہ رضامندی والدین یا سرپرستوں کے دباؤ میں نہیں ہونی چاہیے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے بارے میں عورت کا فیصلہ اس کے والدین یا سرپرستوں کے نکاح کے بارے میں فیصلہ سے بالاتر ہوگا۔ ایک عورت اپنی زندگی کے اس اہم پہلو کے بارے میں تب ہی فیصلہ کر سکتی ہے جب وہ جذباتی، جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہو۔
یہی معاملہ لڑکوں کی شادی کا ہے۔ لڑکیوں کی طرح مسلمان لڑکے کا بھی اس کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہو سکتی۔ صحیح ‘نکاح’ کے لیے بھی اس کی رضامندی ضروری ہے۔اسلام شادی کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کی رضامندی کو لازمی قرار دے کر بچپن کی شادی کی سختی سے ممانعت کرتا ہے اور جب لڑکے اور لڑکیاں اس مرحلے پر پہنچ جائیں جہاں وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں تو ایسے لوگوں کی شادیوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ شادی کے بارے میں یہ اسلامی رہنمائی شادی سے متعلق موجودہ قومی قوانین سے مطابقت رکھتی ہے۔
تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں میں کم عمری کی شادی ہوتی ہے۔ لیکن یہ صرف شاذ و نادر ہی ہیں۔ اور یہ قدیم ہندوستانی ثقافت اور روایت کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہیں جس میں بچپن کی شادی کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ایک اصول بھی رہا ہے۔
اسلام قبول کرنے والے گروہوں اور خاندانوں میں اس غیر سائنسی رسم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ لیکن قدیم ثقافت اور روایت کے آثار اب بھی کچھ مسلمانوں میں موجود ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو تعلیمی اور سماجی و اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں۔ لیکن نہ صرف مسلمانوں بلکہ باقی آبادی کی اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم اور بیداری کے پروگراموں کے ذریعے بچوں کی شادی جیسی غلط رسم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ انڈیا ٹومارو۔۔سید خلیق احمد)