کشمیر میں غیر اعلانیہ ہڑتال کے 85 دن مکمل، معمولات زندگی ہنوز درہم برہم
پیر کے روز بھی وادی کے اطراف و اکناف میں ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر رہی۔ شہر سری نگر کے تمام علاقہ جات بشمول تجارتی مرکز لال چوک میں دن کے وقت دکانیں بند اور تجارتی سرگرمیاں متاثر رہیں۔
سری نگر: جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے اعلان کے خلاف وادی کشمیر میں پیر کے روز غیر اعلانیہ ہڑتال کے 85 ویں دن بھی معمولات زندگی تواتر کے ساتھ متاثر رہی۔ تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی آمدورفت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے وہیں اب چھوٹی مسافر گاڑیاں بھی سڑکوں پر دوڑنے لگی ہیں جس کے نتیجے میں سڑکوں پر ٹریفک جام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق پیر کے روز بھی وادی کے اطراف و اکناف میں ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر رہے۔ شہر سری نگر کے تمام علاقہ جات بشمول تجارتی مرکز لال چوک میں دن کے وقت دکانیں بند اور تجارتی سرگرمیاں متاثر رہیں۔ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل معمول سے زیادہ ہی دیکھی گئی، علاوہ ازیں کچھ چھوٹی مسافر گاڑیوں کو بھی چلتے ہوئے دیکھا گیا جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں صبح کے وقت لوگوں کو ٹریفک جام سے دوچار ہونا پڑا۔
سری نگر کے تمام بازار پیر کے روز بھی علی الصبح کھل گئے اور بعد ازاں گیارہ بجنے سے قبل ہی یکایک بند ہوگئے۔ تمام بازاروں میں صبح کے وقت گاہکوں کا بھاری رش دیکھا گیا۔ وادی کے دوسرے علاقوں میں بھی بازار شام کو کھل گئے جس دوران لوگوں نے اشیائے ضروریہ کی جم کر خریداری کی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وادی میں اب صبح اور شام کے وقت شاپنگ کرنا ایک معمول کی صورت اختیار کر گیا ہے اور ہر شخص اب اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے صبح یا شام کے وقت ہی گھر سے نکلتا ہے۔
یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے پیر کی صبح شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، نے بتہ مالو، پولو ویو، ریذیڈنسی روڑ، لال چوک، جہانگیر چوک، ڈل گیٹ، وغیرہ میں چھاپڑی فروشوں کو گرم ملبوسات، سبزیاں، پھل وغیرہ بیچتے ہوئے دیکھا۔ اس کے علاوہ اضلاع کو سری نگر سے جوڑنے والی سڑکوں پر چھوٹی مسافر گاڑیوں کو بھی چلتے ہوئے دیکھا۔
شہر سری نگر کی طرح وادی کے دوسرے ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں بھی پیر کے روز دن بھر بازار بند رہے اور تجارتی سرگرمیاں مفلوج رہیں اورسڑکیں پبلک ٹرانسپورٹ سے خالی رہیں تاہم نجی ٹرانسپورٹ حسب معمول جاری رہا۔ وادی میں سرکاری دفاتر اور بنکوں میں اگرچہ کام کاج بحال ہوچکا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل برابر معطل ہے۔ تعلیمی ادارے کھلے رہتے ہیں اور عملہ بھی ان میں حاضر رہتا ہے لیکن طلبہ کلاس روموں کے بجائے گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ موجودہ غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر والدین بھی اپنے بچوں کو اسکول یا کالج بھیجنے میں ہچکچاتے ہیں۔
وادی میں جہاں پانچ اگست سے ریل سروس بند ہے وہیں انٹرنیٹ سروس بھی مسلسل معطل ہے تاہم مواصلاتی نظام پر عائد پابندی کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق ریل سروس کو لوگوں، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کے لیے بنا بر احتیاط معطل رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ اور محکمہ پولس کی طرف گرین سگنل موصول ہونے کے بعد ہی ریل سروس کا بحال کیا جائے گا۔
وادی میں براڈ بینڈ و موبائیل انٹرنیٹ خدمات مسلسل بند ہیں جس کے باعث مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں اور طلبہ کو متنوع مشکلات کا سامنا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی معطلی کے باعث انہیں محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ میں قائم ‘میڈیا سنٹر’ میں نیوز آپریشن چلانا پڑتا ہے جہاں جگہ کی تنگی اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب گوناگوں مشکلات درپیش ہیں۔ انہوں نے انتظامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور میڈیا کے دفاتر میں انٹرنیٹ بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
ادھر مختلف مسابقتی امتحانات کے لیے تیاریاں کرنے والے طلبہ کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی ہمارے خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے میں بہت بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔
دریں اثنا انتظامیہ نے پانچ اگست سے محبوس سیاسی لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے صدر اور تین بار جموں کشمیر میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہنے والے اور دو بار رکن پرلیمان کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر مسلسل محصور ہیں جبکہ اُن کے فرزند اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ہری نواس میں نظر بند ہیں اور پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی لگاتار نظر بند ہیں۔
حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی حیدر پورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر مسلسل نظر بند ہیں جبکہ حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نگین میں واقع اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں اور یاسین ملک تہاڑ جیل میں بند ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وادی میں سیاسی سرگرمیوں کی معطلی کے بیچ ہی 24 اکتوبر کو بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات منعقد ہوئے جن میں علاقائی سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے حصہ نہیں لیا تاہم بی جے پی اور آزاد امیدوارں کی اچھی تعداد نے قسمت آزمائی کی۔