کشمیریوں کو بدنام کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے

پہلگام واقعے کے بعد ملک بھر میں کشمیریوں کو نشانہ بنائے جانے کے  معاملے پر میر واعظ عمر فاروق کا اظہار تشویش

مشتاق عامر

نئی دہلی ،04 مئی :۔

ملک کے مختلف حصوں میں کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات پر حریت چیئرمین اور کشمیر کے مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اترکھنڈ کے سیاحتی مقام مسوری میں تین کشمیری تاجروں پر  تشدد کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مقیم کشمیریوں کو اپنی سکیورٹی کو لیکر سخت خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔ میر واعظ عمر فاروق نے کشمیری تاجروں اور طلبہ پر تشدد کئے جانے کے واقعات کو سنگین صورت حال سے تعبیر کیا ہے۔ میر واعظ نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ گزشتہ دنوں مسوری میں ہوئے پر تشدد واقعے پر انہوں نے کہا کہ کشمیری شال فروشوں پر جسمانی اور زبانی حملے انتہائی افسوسناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی پولیس کی ملی بھگت سے کشمیریوں کو اترا کھنڈ سے فرار ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، گھروں کی مسماری ، کریک ڈاؤن کے بعد اب عام شہری، طلبہ، اور چھوٹے تاجروں کو جموں و کشمیر کے باہر  تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کوکشمیر  واپسی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔میر واعظ نے کہا کہ دہائیوں سے تشدد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مصیبتوں کا شکار ہونے والے کشمیریوں کی جانب سے پہلگام کے خونریز واقعے پر  دل سے اظہار افسوس، ہمدردی اور مذمت کر رہے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود انہیں لگاتار بدنام اور نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ نفرت اور میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں جو کشمیریوں کے خلاف جان بوجھ کر بےاعتمادی پھیلا رہا ہے۔ میر واعظ نے کہا کہ جیسے کشمیری ہمیشہ بحران کے وقت سیاحوں اور زائرین کی مدد کرتے رہے ہیں، ویسے ہی ان کی حفاظت کو یقینی بنانے میں بھی ان کا ساتھ دیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کے اندر اور باہر کشمیریوں کو دی جانے والی اجتماعی سزا نہ صرف سراسر ناانصافی ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔

واضح رہے کہ مسوری میں تجارت کرنے والے ایک درجن کے قریب شال فروشوں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور اتراکھنڈ سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔اتر کھنڈ میں مقیم کشمیر تاجروں کے خلاف گزشتہ 23؍ اپریل سے ہی شر پسندوں نے اپنی کارروائی شروع کر دی تھی ۔لیکن مقامی پولیس ان معاملوں کو نظر انداز کرتی رہی ۔اسی دوران کپواڑہ ضلع سے تعلق رکھنے والے تقریباً 16 دیگر کشمیری تاجروں کو بھی دھمکیوں، ہراسانی اور کرایہ کی رہائش گاہوں سے جبری بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔ دو کشمیری شال فروشوں پر حملے کے بعد جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15 سے 16 شال فروشوں نے اتراکھنڈ کے مشہور سیاحتی مقام مسوری کو چھوڑ دیا ہے۔پہلگام حملے کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں خاص طور سے کشمیری مسلمانوں پر حملے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ان پر نہ صرف ہندوتو کے علمبردار شدت پسند گروہوں بلکہ عام شہریوں کی طرف سے بھی تشدد اور زبانی حملے کئے جا رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک خوفناک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بجرنگ دل کے اراکین مسوری میں دو کشمیری شال فروشوں کو بری طرح پیٹ رہے ہیں۔

دو تین افراد کو ان نوجوانوں کو گالیاں دیتے اور ڈراتے دھمکاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس واقعے کے بعد مسوری پولیس کشمیری تاجروں کی مدد کرنے کے بجائے ان سے  علاقہ چھوڑنے کو کہہ رہی تھی۔تشدد کا ویڈیو وائرل ہونے اور مختلف سول سوسائٹی گروپوں کی جانب سے معاملہ اٹھائے جانے کے بعد اتراکھنڈ پولیس نے اس معاملے میں تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔ڈی جی پی اتراکھنڈ دیپم سیٹھ نے کہا کہ اتراکھنڈ پولیس نے مال روڈ پر کشمیری شال فروشوں پر تین نوجوانوں کی جانب سے حملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔گرفتار افراد کی شناخت سورج سنگھ (پوسٹ کیمٹی، ٹہری گڑھوال)، پردیپ سنگھ (ہاتھی پاوں، مسوری، دہرادون) اور ابھیشیک یونیال (کمپنی گارڈن، مسوری، دہرادون) کے طور پر ہوئی ہے۔ دہرادون کے ایس پی سٹی پرمود کمار نے بھی تشدد میں شامل تین افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔کشمیری تاجروں نے مسوری کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یہاں کے تاجر کئی دہائیوں سے اترا کھنڈ کے سیاحتی مقامات پر شال اور گرم کپڑوں کی تجارت کرتے آئے ہیں ۔لیکن اب ان تاجروں کو اتراکھنڈ چھوڑنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے ۔اس معاملے میں مقامی پولیس نے بھی ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہ خود مسوری پولیس بھی انہیں علاقہ خالی کرنے اور فوراً ریاست چھوڑنے کا زبانی حکم دے رہی ہے۔ مسوری کے واقعے نے کشمیری تاجروں کی برادری کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے ۔ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15-16 افراد نے علاقہ چھوڑ کر کشمیر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔36؍ سالہ شبیر احمد ڈار ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی بیوی اور دو بیٹیاں کشمیر میں ہیں۔ وہ گزشتہ 20 سال سے اتراکھنڈ میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رات 9 بجے کے قریب 30-40 افراد آئے، جن میں سے 5-6 کے ہاتھوں میں لاٹھیاں بھی تھیں۔شبیر احمد ڈار نے بتایا کہ کشمیری تاجر اکتوبر سے مارچ تک دہرادون میں کام کرتے ہیں اور پھر مسوری کی مال روڈ پر آتے ہیں۔ ہم صرف دو گھنٹے رات 8 سے 10 بجے تک ہی اپنے اسٹال لگاتے ہیں۔کیا وہ ہمیں دو گھنٹے بھی برداشت نہیں کر سکتے؟

میر واعظ عمر فاورق کا بیان آنے کے بعد جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے بھی اس معاملے میں اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔اپنے ایک بیان میں اسو سی ایشن نے کہا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر اتراکھنڈ حکام سے رابطہ کیا ہے۔اتراکھنڈ حکام نے اس معاملے میں  تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔