کسی کو پاکستانی کہنا غلط ہے مگر جرم نہیں،مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا

سپریم کورٹ نے  میاں، تیاں کہنے کومذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے جرم کے دائرے میں شامل کرنے سے  منع کر دیا

نئی دہلی ،04 مارچ :۔

سپریم کورٹ نے جھارکھنڈ کے بوکارو میں درج ایک مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کسی شخص کو ’میاں-تیاں‘ یا ’پاکستانی‘ کہنا ناپسندیدہ اور غیر مہذب ہے لیکن اسے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے جرم کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ عدالت نے اس معاملے میں درج ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ یہ مقدمہ 2020 میں ایک مسلم سرکاری ملازم نے درج کرایا تھا، جس نے الزام لگایا تھا کہ بحث کے دوران اسے اس کے مذہب کی بنیاد پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ متاثرہ شخص، جو ایک اردو مترجم اور کلرک کے طور پر کام کر رہا تھا، نے کہا کہ وہ آر ٹی آئی درخواست کے جواب کے سلسلے میں ایک دفتر گیا تھا، جہاں ایک 80 سالہ شخص نے اسے بار بار ’میاں-تیاں‘ اور ’پاکستانی‘ کہہ کر اشتعال دلانے کی کوشش کی۔

پولیس نے اس واقعے میں ملزم کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعہ 353 (سرکاری ملازم کو زبردستی کام سے روکنا)، 504 (اشتعال انگیزی) اور 298 (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے کچھ کہنا) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ نچلی عدالت اور جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ملزم کو کوئی راحت نہیں دی، جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔

سپریم کورٹ کی جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل بنچ نے کہا کہ اگرچہ ایسے الفاظ کا استعمال غیر شائستہ ہے لیکن اس سے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت ثابت نہیں ہوتی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں نہ تو کسی پر زور زبردستی کی گئی اور نہ ہی کسی طرح کی امن و امان کی خرابی دیکھنے کو ملی، اس لیے ملزم پر لگائے گئے الزامات درست نہیں ہیں۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد اس معاملے میں درج ایف آئی آر منسوخ کر دی گئی اور ملزم کو مقدمے سے بری کر دیا گیا۔