کرناٹک ہائی کورٹ کے جج کے ذریعہ مسلم اکثریتی علاقہ کو پاکستان کہے جانے پر سپریم کورٹ کی پھٹکار
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے دو دنوں میں رپورٹ طلب کی ۔
نئی دہلی ،20 ستمبر :۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت اب صرف شدت پسند عام ہندوؤں تک محدود نہیں رہی ،اب یہ نفرت عدالتوں میں انصاف کی کرسی پر بیٹھے ججوں کے دماغ میں بھی سرایت کر چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقہ انہیں پاکستان نظر آنے لگا ہے۔معاملہ ہے سوشل میڈیا پر کرناٹک کے ہائی کورٹ کے ایک جج کا ۔ جنہوں نے ایک معاملے کی سماعت کے دوران بنگلوروں میں ایک مسلم اکثریتی علاقہ کو پاکستان کہہ کر حوالہ دیا ۔ اب اس معاملے پر سپریم کورٹ نے خود سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے از خود نوٹ لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جمعہ کو سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے سوشل میڈیا کلپس پر رپورٹ طلب کی ہے۔ جس میں ایک جج کو بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ‘پاکستان’ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور متعلقہ جج کو سخت پھٹکار لگائی ہے۔
در اصل سپریم کورٹ کی یہ کارروائی کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس ویدویاسچر شریشانند کے اسلامو فوبک تبصرہ پر ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر متعلقہ جج کا قابل اعتراض ایک ویڈیو کلپ وائرل ہے جس میں وہ پولیس کو مسلم اکثریتی علاقہ گوری پلیا کو پاکستان کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
صحافی محمد زبیر کے مطابق، ایک ماہ پرانی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ سریشانند پولیس والوں پر تنقید کرتے ہوئے بنگلورو کے ایک علاقے (گوری پالیا) کو پاکستان کہتے ہیں۔ گوری پالیا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جج ایک خاتون وکیل کو فریق مخالف کے وکیل سے پوچھے گئے سوال کا جواب دینے پر سرزنش کر رہے ہیں۔ جج نے خاتون وکیل پرقابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ وہ فریق مخالف کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے انڈر گارمینٹس کا رنگ بھی بتا دیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ کارروائی چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، بی آر گوئی، سوریہ کانت اور ہریشی کیش رائے پر مشتمل پانچ ججوں کی بنچ نے کی ہے۔انہوں نے کہا کہ "عدالت کی توجہ کچھ تبصروں کے بارے میں میڈیا رپورٹس کی طرف مبذول کرائی گئی ہے جو کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس شریشانند نے عدالتی کارروائی کے دوران کی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پایا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے غیر ضروری تبصرہ کیا تھا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کچھ بنیادی رہنما ہدایت طے کر سکتے ہیں اور ہائی کورٹ کے سکریٹری جنرل سے رپورٹ طلب کر سکتے ہیں۔جج کے خلاف کارروائی کو از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ہم کرناٹک ہائی کورٹ کے جج کے ذریعہ کئے گئے تبصروں سے متعلق میڈیا رپورٹ کا نوٹس لے رہے ہیں ہم کورٹ سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ چیف جسٹس سے ہدایت ملنے کے بعد اس عدالت کو دو دنوں کے اندر ایک رپورٹ پیش کریں۔
کیا ہے معاملہ؟
در اصل کارناٹک ہائی کورٹ کے ججس جسٹس وی شریشا نند نے یہ تبصرہ ایک مکان مالک کرایہ دار تنازعہ کی سماعت کے دوران کی تھی ۔گزشتہ 28 اگست کو سماعت کے دوران آخر میں جج نے کہا کہ میسور روڈ فلائی اوور کی جانب جائے ہر طرف آٹو رکشا میں دس لوگ ہوتے ہیں ۔بازار سے گوری پلیا تک میسور روڈ فلائی اوور پاکستان میں ہے ۔ بھارت میں نہیں ، یہ حقیقت ہے۔آپ چاہے جتنا بھی سخت افسر کیوں نہ بھیج دیں اسے پیٹا ہی جائے گا ۔ یہ کسی بھی چینل پر نہیں ہے۔جج کا یہ پورا تبصرہ سوشل میڈیا پر آنے کے بعد تنازعہ شروع ہو گیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے عدالتی وقار کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کارروائی کی ہدایت دی ۔