کرناٹک :مسلم اکثریتی علاقہ کو پاکستان کہنے والے جج نے معافی مانگی
بنگلورو ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن (اے اے بی) کے ممبروں کی موجودگی میں کھلی عدالت میں مانگی معافی اور آئندہ اس طرح کے تبصرے سے گریز کی یقین دہانی
نئی دہلی ،22ستمبر :۔
بنگلورو کے ایک علاقے کو پاکستان کہنے والے اسلامو فوبیا کے شکار کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی سریشانند نے اپنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس وی سریشانند نے واضح کیا کہ ان کا مقصد کسی کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔ انہوں نے یہ معافی بنگلورو ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن (اے اے بی) کے ممبروں کی موجودگی میں کھلی عدالت میں مانگی۔
جسٹس سریشانند نے یہ بھی کہا کہ ان کاتبصرہ غیر ارادی تھا اور کسی فرد یا سماج کے کسی طبقے کو تکلیف پہنچانے کے ارادے سے نہیں کیا گیا تھا۔ یہی نہیں، انہوں نے کہا کہ اگر ان کے تبصرے سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔ واضح ہو کہ سڑک کی حفاظت پر بحث کے بعد پہلا متنازعہ تبصرہ 28 اگست کو کیا گیا تھا۔ انہوں نے بنگلورو کے ایک خاص علاقے کو پاکستان بتایا تھا۔ دوسرا تبصرہ ایک خاتون وکیل سے کیا گیا۔ دونوں کے تبصروں کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
بنگلورو ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن کے صدر وویک سبا ریڈی کے مطابق، خاتون وکیل کے بارے میں ان کے تبصرے کے لیے، جج نے واضح کیا کہ تبصرہ موکل کے علم کے بارے میں تھا اور وکیل کے لیے مناسب نہیں تھا۔ ریڈی نے کہا کہ ہم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک اچھے جج ہیں، لیکن یہ بھی کہا کہ وہ ایسے بیانات نہ دیں جو کیس کے لیے ضروری نہ ہوں۔ اس پر جسٹس شریشانند نے کہا کہ وہ اس طرح کا اب تبصرہ نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ اس معاملے میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی کے بعد رجسٹرار جنرل سے رپورٹ طلب کی تھی۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج کے طرز عمل سے متعلق یہی نہیں، سی جے آئی نے کہا تھا کہ ہم کچھ بنیادی رہنما اصول طے کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی بنچ میں جسٹس کھنہ، بی آر گو ئی، ایس کانت اور ایچ رائے شامل تھے۔