کرناٹک:اسکول کے مسلم ہیڈ ماسٹر کو ہٹانے کیلئےخطرناک سازش ،اسکول کے پانی کے ٹینک میںزہر ملادیا
زہریلا پانی پینے سے اسکول کے تیرہ بچے بیمار ،پولیس نے اس سازش کے الزام میں کرشنا مدر، ساگر پاٹل، اور ناگن گوڈا پاٹل کو گرفتارکر جیل بھیج دیا

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،03 اگست :۔
کرناٹک کے بیلگاوی کے ساوادتی تعلقہ کے ہولی کٹی گاؤں میں ایک حیران کن واقعہ پیش آیا ہے جو فرقہ وارانہ نفرت کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے ۔رپورٹ کے مطابق کچھ اسٹاف نے ایک سرکاری اسکول کے مسلم ہیڈ ماسٹر کو ہٹانے کیلئے سازش رچی ۔اس سازش کے تحت سرکاری اسکول کے پینے کے پانی کے ٹینک میں مبینہ طور پر زہر ملا دیا تاکہ اسکول میں پڑھنے والے طلبا کو نقصان پہنچے اور اس بہانے مسلمان ہیڈ ماسٹر کا تبادلہ ہو جائے۔رپورٹ کے مطابق یہ چونکا دینے والا واقعہ 14 جولائی کو پیش آیا اور آلودہ پانی پینے سے اسکول کے 13 بچے بیمار ہوگئے۔اس سلسلے میں پولیس نے تین افراد کو گرفتار کیا ہے ۔
بیلگاوی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ بھیماشنکر گلڈ نے کرشنا مدر، ساگر پاٹل، اور ناگن گوڈا پاٹل کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ تینوں کو عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے اور اب وہ ہندلگا جیل میں بند ہیں۔
پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ جرم کے پیچھے فرقہ وارانہ سوچ کر فرما تھی۔ مبینہ طور پر ملزمان نے ہیڈ ماسٹر، سلیمان گورنائک کو نشانہ بنایا، جو گزشتہ 13 سالوں سے گورنمنٹ لوئر پرائمری اسکول میں کام کر رہے تھے۔ حکام کے مطابق ساگر پاٹل اور ناگن گوڈا پاٹل ان کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے یہ خطرناک سازش رچی۔
سازش کے تحت ساگر پاٹل، جو ایک ہندو گروپ سے وابستہ ہے، نے مبینہ طور پر کرشنا مدر کو بلیک میل کیا۔ اس نے دھمکی دی کہ کرشنا کے کسی دوسری ذات سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے ساتھ تعلقات ظاہر کرے گا اگر وہ اس منصوبے میں مدد نہیں کرتاہے۔ اس کے بعد ساگر نے کرشنا کو ایک مازا کی بوتل دی جس میں تین زہریلے کیمیکلز کا مرکب تھا۔پولیس نے بتایا کہ کرشنا نے پانچویں جماعت کے طالب علم کو دھوکہ دے کر اسکول کے پانی کے ٹینک میں زہریلا مرکب ڈالا۔
ایس پی بھیماشنکر گلڈ نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’’ہم نے واقعے کے فوراً بعد جانچ کے لیے ٹینک سے پانی کے نمونے جمع کیے‘‘۔ "ہماری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہیڈ ماسٹر کو بدنام کرنے اور خوف پیدا کرنے کے لیے جان بوجھ کر یہ کارنامہ انجا دیا گیاتھا۔
ہیڈ ماسٹر، سلیمان گورنائک نے اس واقعے پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن مقامی اساتذہ اور رہائشیوں نے غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اسکول کے عملے میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "وہ برسوں سے یہاں ایک مخلص اور قابل احترام استاد رہے ہیں۔ ان کے مذہب کی وجہ سے انھیں نشانہ بنانا شرمناک ہے۔