کانپور تشدد کے 32 ملزمین کے خلاف مقدمہ واپس لینے کے فیصلے پر یوگی حکومت  پر تنقید

کانپور میں 2015 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث 32 ملزمین کا تعلق ہندو برادری سے ہے،تمام ملزمین کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کر دی گئی ہے

نئی دہلی ،لکھنؤ،14 اکتوبر :۔

اتر پردیش کی یوگی حکومت پر اکثر یہ الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ یوگی حکومت مجرموں کا مذہب اور ذات دیکھ کر کارروائی کرتی ہے۔حقیقی معنوں میں اگر معاملات پر نظر ڈالیں تو یہ الزام نہیں بلکہ حقیقت معلوم ہوتا ہے کہ اتر پردیش کی یوگی حکومت مذہب کی بنیاد پر سخت کارروائی کرتی ہے  اور جو ہم مذہب ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کے بجائے مقدمات واپس لیتی ہے۔

اتر پردیش کی یوگی حکومت  کا کانپور تشدد کے معاملے میں حال ہی میں لئے گئے ایک فیصلے سے یہی تاثر جاتا ہے ۔یوگی حکومت نےکانپور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث 32ملزمین کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر چو طرفہ تنقید کی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ اس معاملے میں چارج شیٹ داخل کی گئی ہے اور تمام 32 ملزمان ہندو برادری سے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے۔

انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے کانپور میں 2015 کے فرقہ وارانہ تشدد کیس میں 32 ملزمان کے خلاف مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں بحث تیز ہوگئی ہے۔اتر پردیش حکومت نے کانپور ضلع انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ 2015 کے فرقہ وارانہ تشدد کے کیس کو واپس لینے کے لیے عدالت میں عرضی داخل کرے۔

یہ معاملہ 2015 کا ہے، جب 24 اکتوبر کو کانپور کے فاضل گنج علاقے میں محرم کے جلوس کے دوران مبینہ طور پر مذہبی پوسٹر پھاڑنے پر فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔یہ تشدد تیزی سے دوسرے علاقوں میں پھیل گیا، جس کے بعد علاقے میں دو گروپوں کے درمیان زبردست پتھراؤ اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ اس تشدد میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا۔کئی گھنٹے کی محنت کے بعد پولیس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی اور ملزمان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے۔

اس معاملے میں سب انسپکٹر برجیش کمار شکلا کی شکایت کی بنیاد پر فضل گنج پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

انڈیا ٹو مارو نے انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ  ایک سرکاری وکیل نے کانپور ضلعی انتظامیہ کو دی گئی ہدایات کی تصدیق کرتے ہوئے ملزم کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی تصدیق کی ہے۔سرکاری وکیل نے بتایا، ’’ہمیں ایک خط موصول ہوا ہے جس میں ہمیں کیس واپس لینے کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ "تاہم، ہم نے ابھی تک درخواست جمع نہیں کرائی ہے۔”

رپورٹ کے مطابق 8 اکتوبر کو لکھا گیا یہ خط ریاستی حکومت کے اسپیشل سکریٹری نے بھیجا تھا۔ اس سے قبل حکومت نے کیس کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ پولیس اور پراسیکیوشن سمیت ضلعی حکام کی رائے بھی مانگی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ 24 اکتوبر 2015 کو ہونے والے تشدد میں کئی لوگ زخمی ہوئے تھے، کیونکہ ایک دن قبل محرم کے جلوس کے دوران مذہبی پوسٹر کی مبینہ "توہین” کے خلاف احتجاج کر رہے لوگوں کے ایک گروپ نے فضل گنج میں ایک الگ کمیونٹی پر حملہ کر دیا تھا۔ پولیس سٹیشن کے علاقے میں دوسرے گروپ کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔

اس معاملے میں ملزمان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 147 (فسادات)، 153-A (مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 295-A (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے جان بوجھ کر بدنیتی پر مبنی عمل)، 353، 332 اور 336 کے تحت مقدمہ   کئی دفعات کے تحت رجسٹرڈ ہے۔پولیس نے ان ملزمان پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا بھی الزام لگایا ہے اور مقدمہ درج کر لیا ہے۔