ڈی ڈی اے کے ذریعہ منہدم کی گئی اخونجی مسجد میں شب برات پر نماز پڑھنے اور قبرستان جانے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد

نئی دہلی، 23 فروری :

دہلی ہائی کورٹ نے مہرولی  میں ڈی ڈی اے کے ذریعہ  منہدم کر دی گئی چھ سو سال پرانی اخونجی مسجد میں شب برات کے موقع پر نماز پڑھنے اور قبرستان جانے کی بلا روک ٹوک اجازت دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ جسٹس پروشیندر کورو کی بنچ نے عرضی کو خارج کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے کہا کہ مسجد فی الحال دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے قبضے میں ہے اور اس معاملے سے متعلق اہم مقدمہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اہم کیس کی سماعت ہائی کورٹ میں 7 مارچ کو ہونے والی ہے۔ ایسی صورتحال میں اس درخواست پر کوئی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عرضی دہلی وقف بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی نے دائر کی ہے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ شمس خواجہ نے کہا کہ یہ درخواست فوری دائر کرنے کی وجہ شب برات ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ شب برات پر اپنے آباو اجداد کی قبروں پر رات بھر دعائیں کی جاتی ہیں۔

اہم کیس کی سماعت کے دوران 2 فروری کو عدالت نے ڈی ڈی اے سے پوچھا تھا کہ کیا اس نے مہرولی میں چھ سو سال پرانی اخوند جی مسجد کو منہدم کرنے سے پہلے کوئی درست نوٹس جاری کیا تھا۔ اہم کیس کی سماعت کے دوران ڈی ڈی اے کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سنجے کتیال نے کہا تھا کہ مذہبی کمیٹی نے 4 جنوری کو مسجد کو منہدم کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس سفارش کی بنیاد پر مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔ کتیال نے کہا تھا کہ 4 جنوری سے پہلے مذہبی کمیٹی نے دہلی وقف بورڈ کے سی ای او کو اس معاملے پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا تھا۔ اس پر شمس خواجہ نے کہا کہ مذہبی کمیٹی کو مسجد گرانے کا حکم دینے کا کوئی حق نہیں۔ تب عدالت نے ڈی ڈی اے سے کہا کہ وہ بتائیں کہ کیا مسجد کو گرانے سے پہلے کوئی جائز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ  مسجد اخونجی، جہاں مدرسہ بحرالعلوم اور قابل احترام شخصیات کی قبریں تھیں کو فروری کے اوائل میں مسمار کر دیا گیا تھا۔ ڈی ڈی اے اور محکمہ جنگلات نے مل کر یہ کارروائی انجام دی تھی۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسجد سلطان شمس الدین التمش کے دور کی تھی اور اسے مسجد جنات بھی کہا جاتا تھا۔ واضح رہے کہ انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے یہاں موجود ایک مندر کو بھی منہدم کر دیا تھا۔