ڈیجیٹل کرائم لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہے : الہ آباد ہائی کورٹ
خاتون کی نازیبا تصاویر وائرل کرنے والے شخص کی ضمانت عرضی عدالت نے خارج کی

مشتاق عامر
نئی دہلی ،07 جولائی :۔
ڈیجیٹل کرائم کے بڑھتے معاملات پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔عدالت نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل کرائمس لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں ۔ڈیجیٹل کرائم کے ذریعے خواتین کو نشانہ بنائے جانے پر سخت رخ اختیار کرتے ہوئے عدالت نے اسے سنگین جرم قرار دیا ہے ۔ اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے خاتون کی نازیبا تصاویر وائرل کرنے کے ملزم کی ضمانت عرضی مسترد کر دی ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ نے اُس شخص کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جس پر ایک خاتون کی نجی اور نازیبا تصاویر واٹس ایپ کے ذریعے پھیلانے کا الزام ہے۔
ملزم کو جنوری 2025 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس پر بھارتیہ نیائے سنہیتا (BNS) کی مختلف دفعات 74، 352، 351(2)، دفعہ 64(1) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 67A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے متاثرہ خاتون کی نجی تصاویر واٹس ایپ کے ذریعے عام کیں اور اس کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی ۔ معاملے میں پولیس نے ملزم کو گررفتار کیا تھا ۔ ملزم نے ضمانت کے لیے نچلی عدالت میں عرضی داخل کی تھی ۔لیکن نچلی عدالت نے ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ کورٹ نے اپریل 2025 میں ملزم کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد اُس نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اجے بھنوٹ کی بنچ نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے جرائم کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ جب کسی شخص کی نازیبا تصاویر سوشل میڈیا جیسے عوامی پلیٹ فارم پر گردش کرتی ہیں تو یہ زندگیوں کو تباہ کر سکتی ہیں۔ یہ ایک تلخ سماجی حقیقت ہے ،جسے تسلیم کرنا ہوگا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے پایا کہ متاثرہ خاتون کی نازیبا تصاویر درخواست گزار نے واٹس ایپ پر دانستہ طور سے پھیلائیں۔ کچھ تصاویر برآمد کی جا چکی ہیں اور فورنسک جانچ کے لیے بھیجی گئی ہیں۔ فورنسک رپورٹ کا انتظار ہے۔ عدالت کہا کہ جرم سنگین نوعیت کا ہے۔ قرائن سے ظاہر ہے کہ ملزم نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ایسی حالت میں ضمانت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
ہائی کورٹ نے ڈیجیٹل کرایمس کو سماج کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ۔ عدالت نے جرم کی سنگینی اور معاشرتی نقصان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ معاملے کو تیزی نمٹانے کے لیے ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کو کارروائی کو تیز کرنے کی ہدایت دی ہے۔عدالت نے نچلی عدالت کو حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے کی سماعت ایک سال کے اندر مکمل کر لے۔ضلع جج کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مقدمے کی ہفتہ وار نگرانی کریں۔فورنسک سائنس لیبارٹری کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فورنسک رپورٹ ایک ماہ کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش کریں۔پولیس کمشنر، پریاگ راج (الہ آباد ) کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ عدالت میں وارنٹ اور سمن کی تعمیل کی صورت حال پر حلف نامہ داخل کرائیں۔عدالت نے ٹرائل کے دوران غیرضروری یا تاخیر سے بچنے کے لیے یہ بھی ہدایت دی کہ نچلی عدالت میں ہڑتالوں کے باوجود کارروائی جاری رکھی جائے۔ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر پولیس عدالتی احکامات پر عمل نہ کرے تو ٹرائل کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ متعلقہ ایس ایس پی سے حلف نامہ طلب کرے اور ضروری قانونی کارروائی کو پورا کرے۔ اگر ضروری ہو تو اعلیٰ پولیس افسران کو عدالت میں ذاتی حیثیت سے طلب کیا جائے ۔