چھتیس گڑھ :مسلمانوں کے گھرمسمار،غیر مسلموں کے گھروں پر کوئی کارروائی نہیں

 چھتیس گڑھ کے امبیکاپور میں جنگلات کی زمین پر قبضے کا حوالہ دے کرانتظامیہ کی کارروائی، مسلمانوں کے40 مکان منہدم مگر وہیں پر غیر مسلموں کے گھر محفوظ

نئی دہلی ،24 جنوری :۔

ملک میں مسلمانوں کے خلاف جہاں ہندوتو بریگیڈ نفرت کا مشعل لے کر سر گرم ہے وہیں بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں حکومت اور انتظامیہ قانون اور امن و امان کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور اس معاملے میں کھلے طور پر تعصب  سے کام لیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر  سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضوں کے نام پر پورے ملک میں حکومتی سطح پر متعصبانہ کارروائی جاری ہے۔مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا ایک تازہ واقعہ چھتیس گڑھ میں پیش آیا ہے جہاں مسلمانوں کے چالیس گھروں پر غیر قانونی قبضہ کے نام پر بلڈوزر چلا دیا گیا  مگر وہیں غیر مسلموں کے مکانوں کو  انتظامیہ نے چھوا تک نہیں ۔

چھتیس گڑھ حکومت کی یہ متعصبانہ کارروائی کا واقعہ  چھتیس گڑھ کے امبیکا پور کے قریب مہامایا پہاڑ نامی علاقے میں  پیش آیا ہے۔  محکمہ جنگلات کی زمین پرسے تجاوزات ہٹانے کے نام پر کی گئی اس کارروائی میں مسلمانوں کے40  مکانات منہدم کردئیےگئے جبکہ اسی مقام پر غیر مسلموں کے مکانات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق محکمہ جنگلات نے نوٹس جاری کر کے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔ محکمہ جنگلات کی طرف سے دی گئی مہلت ختم ہونے کے بعد انتظامیہ کی ٹیم نے تجاوزات ہٹانے کا عمل شروع کیا۔ اس دوران متاثرین نے کارروائی کی مخالفت بھی کی۔ سینئر کانگریس لیڈران سمیت علاقے کے مکینوں کی بڑی تعداد جے سی بی کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئی۔ پولیس نے احتجاج پر بیٹھے لوگوں کو ہٹانے کیلئے  طاقت کا استعمال کیا۔

رپورٹ کے مطابق  مقامی لیڈر غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ’’جنگل کی زمین پر 200؍ گھر ہیں لیکن صرف مسلمانوں کے گھر ہی گرائے گئے۔ حکام کی جانب سے60  گھروں کو نوٹس بھیجے گئے۔ ہم نے انہدام کی مہم پر روک لگانے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا لیکن اسٹےآرڈر ہم وقت پر حاصل نہیں کر سکے۔

ریاست کے وزیر جنگلات کیدار کشیپ کے ضلع سرگوجہ کا دورہ کرنے اور علاقہ سے تجاوزات ہٹانے کے احکامات کے تین دن بعد بلڈوزر کی کارروائی کی گئی۔ وزیر نے کہا تھا کہ تجاوزات کو ہٹایا جائے گا۔ غلام مصطفیٰ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں ان یہاں کے مکینوں کے خلاف ایک مہم چلائی گئی تھی، جس میں انہیں ’روہنگیا‘ کہہ کر علاقے سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم، چونکہ اس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی اس لیے اس معاملہ کو روک دیا گیا تھا۔ مصطفیٰ کے مطابق یہ رہائشی دو دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔ وہ جھارکھنڈ، بہار اور اتر پردیش کے مہاجر مزدور ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ  اگر آپ اس علاقے میں مزید جائیں تو یہاں دلتوں اور دیگر برادریوں کی آبادی ہے لیکن صرف مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔

کانگریس لیڈرشفیع احمد نے بھی انہدام کی مہم پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے جان بوجھ کر مسلم طبقے کو نشانہ بنایا۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کے بارے میں بی جے پی کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ باشندے وہاں 20 سال سے رہ رہے ہیں۔ اس وقت بی جے پی کی حکومت تھی اور اب مرکز اور ریاست دونوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ پھر بنگلہ دیشی درانداز کیسے داخل ہوئے؟ آپریشن کے دوران500؍سے زائد پولیس اہلکار، محکمہ جنگلات، میونسپل کارپوریشن اور ضلعی انتظامیہ کے ملازمین تعینات تھے۔