چھتیس گڑھ :مساجد میں جمعہ کے خطبوں پر حکومت کی نگرانی،ریاستی وقف بورڈ کاقابل اعتراض فرمان

مساجد کے ائمہ کو جمعہ کے خطبوں  میں تقریر کاموضوع اور اس تفصیلات کی منظوری لازمی قرار،سیاسی موضوعات سے پرہیز کی تلقین،خلاف ورزی پر ایف آئی آر درج کرنے کا انتباہ، ریاستی وقف بورڈ کے چییر مین سلیم راج نے حکم نامہ جاری کیا

نئی دہلی ،18 نومبر:۔

وقف بورڈ ترمیمی بل پر تنازعات کے درمیان چھتیس گڑھ کی بی جے پی حکومت نے ملک میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا فرمان جاری کیا ہے۔ جس کے تحت مساجد میں ہونے والے جمعہ کے خطبوں کی اب وقف بورڈ کے ذریعہ جانچ کی جائے گی اور منظوری لی جائے گی ۔بغیر منظوری کے ریاست کے کسی بھی مسجد میں ائمہ خطبہ نہیں دے سکیں گے۔

رپورٹ کے مطابق چھتیس گڑھ حکومت کے تحت چلنے والے وقف بورڈ نے ریاست کی مساجد کے ائمہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ جمعہ سے قبل اپنے خطبہ کی بورڈ سے جانچ کرائیں۔وقف بورڈ کے ذریعہ چھتیس گڑھ کی بی جےپی حکومت کے اس فرمان کو راست طور پر مذہبی امور میں مداخلت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق وقف بورڈ کے چیئرمین سلیم راج نے وضاحت کی کہ اس ہدایت کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ خطبات مذہبی رہیں اور سیاسی رخ اختیار نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ تقاریر میں سیاسی رنگ نہیں ہونا چاہیے۔ بعض اوقات مساجد سے فتوے (مذہبی احکام) جاری کیے جاتے ہیں یا سیاسی جماعتوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ مساجد کو مذہبی رسومات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور سیاسی مرکز (سیاسی اڈہ) میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے،‘‘۔

انہوں نے  دعویٰ کیا  کہ مساجد اور درگاہوں پر وقف بورڈ کا اختیار ہے، کیونکہ یہ اس کے انتظام میں آتے ہیں۔ مزید برآں، اماموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ حکومت کے کاموں کی تعریف کریں اور  اقلیتوں کے لیے حکومت کی فلاحی اسکیموں کے بارے میں بیداری پیدا کریں۔

حکومت کی جانب سے اس ہدایت پر عمل آوری کیلئے مساجد کے متولیوں کا واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا گیا ہے ۔ہر متولی کو اس گروپ میں جمعہ کی تقریر کا موضوع اور اس کی تفصیلات لکھنی ہوں گی۔ وقف بورڈ سے مقرر کردہ افسران اس موضوع اور تقریر کی جانچ کریں گے ۔ منظوری کے بعد ہی ائمہ اس موضوع پر مساجد میں تقریر کر سکیں گے۔اس کی خلاف ورزی پر وقف بورڈ نے ایف آئی آر کی دھمکی بھی دی ہے۔

واضح رہے کہ چھتیس گڑھ حکومت کے تحت چلنے والے وقف بورڈ کا ملک میں اب تک کا یہ سب سے انوکھا فرمان ہی جو قابل مذمت سمجھی جا رہی ہے۔اسے راست طور پر مذہبی امور میں مداخلت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ریاستی وقف بورڈ کا کام ہے وقف املاک کی نگرانی کرنا مساجد میں مذہبی امور پر مداخلت کا اختیار اسے حاصل نہیں ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب بی جے پی والے ہمیں بتائیں گے کہ دین کیا ہے۔اب کیا مجھے مذہب پر عمل کرنے کیلئے بی جے پی سے اجازت لینا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔  اپوزیشن کانگریس پارٹی کی طرف سے  بھی شدید تنقید کی گئی ہے، جو اسے مذہبی آزادی پر تجاوز کے طور پر دیکھتی ہے۔ کانگریس کے میڈیا سیل کے چیئرمین سشیل آنند شکلا نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "وقف بورڈ کا کردار وقف املاک کا انتظام کرنا اور وقف کے کاموں کی پیروی کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ مذہبی خطبات کا حکم دینا۔