چار دہائیوں بعد ایک بہن کو بھائی سے جائیدادمیں حصہ ملا، ہندو جج نے قرآن کی آیت کا حوالہ دے کر فیصلہ سنایا
کشمیر کے ایک مسلم خاندان کا معاملہ،بہن کےانتقال کے بعد بیٹے مامو سے وراثت میں حصہ کیلئے جدو جہد کرتے رہے
نئی دہلی ،22 دسمبر :۔
مسلم خاندانوں میں غیر مسلموں کے طرز پر بہنوں کو حصہ دینے کی روایت بہت کم ہے۔حالانکہ قرآن اور احادیث میں کھلے طور پر وارثت میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی حصہ مختص ہے مگر افسوس کی لوگ جہیز اور بیٹیوں کی شادی میں لاکھوں روپے پانی کی طرح بہا دیتے ہیں لیکن جب وراثت میں بیٹیوں کو حصہ دینے کی بات آتی ہے تو خاموش ہو جاتے ہیں ۔ایسے ہی ایک کشمیر کے مسلم خاندان میں معاملہ سامنے آیا ہے جہاں ایک بہن کو اپنے بھائیوں سے باپ کی وراثت میں حصہ لینے کیلئے لمبی جدو جہد کرنی پڑی ۔عدالت سے فیصلے کا انتظار کرتے کرتے بہن کا انتقال ہو گیا پھر ایک بیٹے کا بھی انتقال ہو گیا مگر فیصلہ نہیں آیا ۔دوسرے بیٹے نے ذمہ داری سنبھالی اور جدو جہد کرتے رہے بالآخر چالیس سال بعد بہن کو بھائی کے ذریعہ وراثت میں حصہ دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہندو جج کو قرآن کی آیت کا حوالہ دے کر وراثت میں حصہ دینے کا فیصلہ سنایا ہے ۔
کشمیر کے رہائشی محمد یوسف بٹ جائیداد کے ایک مقدمے میں چار دہائی بعد آنے والے عدالتی فیصلے سے خوش تو بہت ہیں لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پا رہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ماں زندہ ہوتیں تو وہ بہت خوش ہو جاتیں۔‘
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کیس میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہندو جج نے مقدمے کی سماعت کے دوران مقدس کتاب قرآن مجید کی ایک آیت کا حوالہ دیا۔جموں کشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس وِنود چٹرجی کول نے گذشتہ ہفتے دیے گئے فیصلے میں ذیلی عدالتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عدالتیں اور افسران مسلم پرسنل لا سے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں۔‘جسٹس کول نے قران کی سورة النساٴ کی گیارہویں آیت کا حوالہ دے کر کہا کہ ’اسلام نے تقسیم وراثت کے واضح اصول بتائے ہیں۔ لڑکوں کو لڑکیوں سے دوگنا ملتا ہے کیونکہ ان پر بیوی، بچوں، ماں باپ وغیرہ کی کفالت کا ذمہ ہے لیکن اسلام میں لڑکیوں کو والد کی وراثت سے حصہ دینے کو ترجیح دی گئی ہے۔‘
سرینگر کے نواح میں رہنے والی مُختی نامی خاتون کو 1980 میں اُن کے بھائیوں نے والد کی وراثت سے بے دخل کر کے زینہ کوُٹ نامی علاقے میں 69 کنال زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔مختی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس دوران اُن کے بھائیوں نے محکمہ مال کے افسروں کے ساتھ ساز باز کر کے زمین کا انتقال اپنے نام کروایا۔مختی اپنی چار بیٹیوں اور پانچ بیٹوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ عدالت کے چکر بھی کاٹتی رہیں۔سنہ 1996 میں ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ نے ان کے حق میں فیصلہ بھی سنایا تھا لیکن اُسے دوسری عدالت میں چیلنج کیا گیا اور پھر اسی سال مختی وفات پا گئیں۔اس کے بعد اُن کے بڑے بیٹے محمد سلطان بٹ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ وہ بھی دہائیوں سے عدالت کے چکر کاٹتے رہے یہاں تک کہ اس سال جنوری میں اُن کی وفات ہو گئی۔تب سے مختی کے چھوٹے بیٹے محمد یوسف بٹ نے اس مقدمے کی پیروی کرنا شروع کی۔ان کے وکیل ولی محمد شاہ نے بتایا کہ ’دیر سے ہی سہی، مختی کے بچوں کو بالآخر انصاف ملا۔‘ عدالتی فیصلے میں مختی کے بھائی سے کہا گیا ہے ان برسوں کے دوران اگر مختی کے حصے (23 کنال) میں سے کچھ فروخت کیا گیا ہے تو انھیں موجودہ قیمتوں کے حساب سے ادائیگی کریں یا کسی دوسری جگہ اُتنا ہی رقبہ مختی کے بچوں کو دیا جائے۔