پیغمبر اسلام کی زندگی پوری انسانیت کے لیے ہمدردی اور مفاہمت کا آفاقی نمونہ ہے
انڈیا سلامک کلچرل سینٹر میں عید میلاد النبیؐ کی مناسبت سے منعقدہ سیرت طیبہ پر پروگرا م میں مقررین نے معاشرے میں امن، انصاف، اور رواداری پر زور دیا

نئی دہلی،06 ستمبر :۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی مناسبت سے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (آئی آئی سی سی) کے زیر اہتمام گزشتہ روز جمعہ کی شام کو "معاشرے میں امن اور رواداری کے لیے سیرت نبوی کا پیغام” کے عنوان سے ایک فکر انگیز گفتگو کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں ممتاز علماء،سماجی رہنما، اور دانشوروں نے شرکت کی جنہوں نے عصری چیلنجوں کے تناظر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور پیغام پر سیر حاصل گفتگو کی۔پروگرام کی صدارت سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے کی،جبکہ نظامت قمر احمد اور ڈاکٹر حفیظ الرحمان نے کی ۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت محمد سلیم انجینئر،پروفیسر اخترالواسع اور اسلامی اسکالر ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے پر مغز خطاب کیا اور سیرت نبویؐ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پیغمبر اسلام کی زندگی نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک روحانی نمونہ ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہمدردی اور مفاہمت کا آفاقی نمونہ ہے۔
سامعین سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر نے اسلام کے پیغام کی آفاقیت اور جدید دنیا سے اس کی گہری مطابقت پر زور دیا۔ انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود، اور منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔
انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے ان کی ذات سے بھی زیادہ قریب ہے، ہر خیال، نیت اور جذبات سے باخبر ہے۔ سیرت نبوی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام کو اکثر غلط طریقے سے ہندوستان کے لیے اجنبی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں اس کا مطلب امن اور خود کوخدا کے حوالے کرنا ہے۔ "خدا کے سامنے جھکنے سے، انسان کو اندرونی سکون ملتا ہے، اور تب ہی زمین پر امن قائم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدل اسلام کی بنیاد ہے۔ انہوں نے سورۃ الحدید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام انبیاء عدل و انصاف کے قیام کے لیے بھیجے گئے جس کے بغیر امن کا قیام ناممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام محض رسمی نہیں بلکہ ایک جامع طرز زندگی ہے جو ذاتی، سماجی اور سیاسی ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے اسلام کو آزادی کی تحریک قرار دیا، جس نے انسانیت کو سماجی، ثقافتی اور نظریاتی غلامی کے طوق سے آزاد کیا۔
انہوں نے حاضرین کو مزید یاد دلایا کہ اسلام کا آغاز 1400 سال پہلے نہیں ہوا بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مسلمانوں کو تمام انبیاء کی یکساں تعظیم کرنی چاہیے،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان ایک قدیم تہذیب ہے یہاں بھی پیغمبرو ں کا نزول ہوا ہوگا۔
اپنے خطاب کے اختتام پر سلیم انجینئر نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اسلام کو اپنے طرز عمل کے ذریعہ امن، مفاہمت اور انصاف کی مثال کے طور پر پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ” ہمارے الفاظ سے کہیں زیادہ ہمارے اعمال سے پیغام پہنچنا چاہیے۔
جامعہ ہمدرد میں اسلامیات کے معاون پروفیسر اور انجمن ترقی اردو ہند کے نائب صدر پروفیسر اختر الواسع نے انسانیت اور رحمت کے پہلے استاد کی حیثیت سے پیغمبر اسلام کے کردار پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پیغمبر کا مشن نماز یا روزہ جیسی عبادات سے نہیں بلکہ اخلاق اور کردار سے شروع ہوا۔انہوں نے کہا کہ میثاق مدینہ کے ذریعے، پیغمبر نے متنوع گروہوں کو باہمی احترام، دفاع اور بقائے باہمی کے فریم ورک کے تحت جمع کیا۔ فتح مکہ جیسی کامیابیوں کے بعد بھی انہوں نے کبھی بدلہ نہیں لیا۔ اپنے الوداعی خطبہ میں، پیغمبر نے مساوات اور ہمدردی کو فروغ دیتے ہوئے نسل اور نسب کی تقسیم کو ختم کیا۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور انسانیت کے لیے وفاداری کے پیغام کو عام کریں۔
اسلامی اسکالر ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے لڑائیوں کے دوران پیغمبر اسلام (ص) کے بے مثال صبر اور رحم پر توجہ دی۔ انہوں نے احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحمل کا ذکر کیا، جہاں زخمی ہونے کے باوجود آپ نے اپنی تلوار استعمال کرنے سے گریز کیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 82 لڑائیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے کبھی جارحیت کا آغاز نہیں کیا، ہمیشہ اپنا دفاع کیا، سوائے خیبر کے۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پیغمبر اسلام کی زندگی نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک روحانی نمونہ ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہمدردی اور مفاہمت کا آفاقی نمونہ ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے، سلمان خورشید، سابق مرکزی وزیر، نے نبی کریم کی تعلیمات کی معنویت اور اہمیت پر زور دیا۔ پروگرام دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
(بشکریہ :انڈیا ٹو مارو،نوشاد خان)