پیسے لے کر ایوان میں سوال پوچھنے یا ووٹ دینے والے عوامی نمائندوں کے خلاف ہوگی کاروائی

 سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ سناتے ہوئے عوامی نمائندوں کو فراہم خصوصی استثنیٰ کو برخواست کر دیا،کسی طرح کی راحت دینے سے انکار

نئی دہلی04 مارچ :۔

سپریم کورٹ نے آج عوامی نمائندوں کے سلسلے میں اہم فیصلہ سنایا ہے۔ پیسے لے کرایوان میں سوال اٹھانے یا ووٹ دینے والے ارکان اسمبلی اورارکان پارلیمنٹ کے خلاف اب قانونی کاروائی ہوگی۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے آج فیصلہ سناتے ہوئے عوامی نمائندوں کو حاصل اس سلسلے میں خصوصی استثنی کو بھی برخواست کر دیا ہے۔عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق  اب کوئی عوامی نمائندہ رقم حاصل کرتے ہوئے ایوان میں کوئی سوال اٹھاتا ہے یا ووٹ دیتا ہے تو اسے کوئی راحت نہیں ملے گی بلکہ انھیں بھی رشوت کے معاملہ میں قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سال 1998 میں عدالت نے اس سلسلے میں اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ ایسے معاملات میں ارکان پارلیمنٹ اورارکان اسمبلی کے خلاف رشوت لینے پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا کیونکہ انہیں پارلیمانی استحقاق کا تحفظ حاصل ہے۔ تازہ طورپر سپریم کورٹ نے 1998 کے نرسمہا راؤ معاملہ پراس وقت کے فیصلہ کوپلٹ دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، "ایم پیز/ایم ایل اے کے خلاف ووٹ دینے کے لیے رشوت لینے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ 1998 کے پی وی نرسمہا راؤ کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے فیصلے کو پلٹ دیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک نوٹ میں ایم پیز /ایم ایل اے جو ایوان میں ووٹ کے بدلے ووٹ دیتے ہیں وہ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ مرکز نے بھی ایسی کسی نرمی کی مخالفت کی تھی۔”

سپریم کورٹ نے کہا، "آرٹیکل 105(2) یا 194 کے تحت رشوت کو استثنیٰ نہیں دیا گیا ہے کیونکہ رشوت میں ملوث ممبر کسی ایسے مجرمانہ فعل میں ملوث ہے جو قانون سازی میں ووٹ دینے یا تقریر کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے۔” جرم جب ایم پی یا ایم ایل اے رشوت لیتا ہے تو یہ مکمل ہوتا ہے۔ اس طرح کے تحفظ کے وسیع اثرات ہوتے ہیں۔ سیاست کی اخلاقیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ رشوت ستانی کو پارلیمانی مراعات سے تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ایک سنگین خطرہ ہے۔ ایسے تحفظات کو ختم ہونا چاہیے۔”