پہلے روہنگیا اب بنگلہ دیشی کے نام پر جھگی بستی میں رہنے والے مسلمانوں پر دہلی پولیس کا جبر
بنگالی اور آسامی بولنے والوں کے والوں کو درانداز قرار دے کر پولیس کے ذریعہ ہراساں کئے جانے کا الزام،جھگی بستی میں رہنے والے غریب مسلمانوں میں خوف و ہراس
نئی دہلی ،یکم جنوری :۔
دہلی میں ان دنوں جھگی بستی میں رہنے والے مسلمانوں میں خوف و ہراس کا عالم ہے۔پہلے روہنگیا کے نام پر انہیں پریشان کیا گیا اور اب بنگلہ دیشی کے نام پر غریب مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ دہلی پولیس کبھی بھی آ کر انہیں تفتیش کے نام پر اٹھا کر لے جاتی ہے اور گھنٹوں تھانوں میں بٹھائے رکھتی ہے۔ خاص طور پر بنگلہ اور آسامی بولنے والوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔
در اصل دہلی پولیس قومی راجدھانی میں واقع بنگالی بولنے والی کچی آبادیوں میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کی تلاشی مہم چلا رہی ہے۔ دہلی پولیس کی تازہ رپورٹ کے مطابق آج اس نے دلی میں غیر قانونی طریقے سے مقیم 11 بنگلہ دیشیوں کو ڈی پورٹ کیا ہے۔ اس سے قبل اس مہم میں 8 غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو قانونی کارروائی کے بعد بنگلہ دیش ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔پولیس کے مطابق یہ آپریشن ایل جی وی کے سکسینہ کی طرف سے دہلی پولیس کو دی گئی ہدایات کے بعد شروع کیا گیا ہے جو قومی راجدھانی میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی شہریوں کے خلاف ہے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ساؤتھ ویسٹ) سریندر چودھری نے کہا، "مہیپال پور کے علاقے میں غیر قانونی تارکین وطن کے ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے بارے میں مصدقہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے، ٹیم نے 11 افراد کو حراست میں لیا، جو کہ بنگلہ دیشی شہری تھے اور ان کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔
جنوبی مغربی ضلع کے اینٹی اسنیچنگ سیل نے ان 11 بنگلہ دیشی شہریوں کو گرفتار کیا ہے جن کے نام محمد شمول، محمد علی پورن، محمد شہاب حسین، محمد ذاکر حسین بپلوف، انور حسن، مسعود العالم اتل، زکریا احمد، ارپون کمار چندا، ، میزان الدین اور عارف الرحمن اکرم کا ذکر کیا گیا ہے۔دوران تفتیش انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے بھارت جانے کے لیے سیاحتی ویزا لیا تھا اور ویزا ختم ہونے کے بعد واپس نہیں گئے۔
یہ تلاشی مہم دہلی پولیس کی خصوصی ٹیم دہلی کے مختلف علاقوں میں چل رہی ہے۔ تاہم، بہت سے بنگالی بولنے والے ہندوستانی جو بنگال، بہار یا آسام کے باشندے ہیں، کو بھی اس مہم میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انڈیا ٹومارو کی رپورٹ کے مطابق بنگالی بستی کے متعدد رہائشیوں کو حال ہی میں پولیس نے شناختی کارڈ کی تصدیق کے لیے بلایا تھا۔ ان سب کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں تقریباً 10 گھنٹے تک پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا اور دستاویزات دیکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
پولیس کی طرف سے اچانک اٹھائے جانے، بنگلہ دیشی زبان میں بات کرنے، دن بھر تھانے میں بند رکھنے، دستاویزات دیکھنے اور پھر شام کو چھوڑ دینے کے عمل سے لوگ ناراض اور خوفزدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بنگلہ دیشی کہہ کر پریشان کیا جا رہا ہے، ہم بنگالی بولتے ہیں، ہم بنگلہ دیشی کیسے بن سکتے ہیں؟
دہلی کی بنگالی کالونی میں 10 ہزار سے زیادہ بنگالی بولنے والوں کی آبادی ہے۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ وہ یہاں 20 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی بنگال کے کوچ بہار سے ہے، جو بنگالی بولنے والے لوگ ہیں جو آس پاس کے علاقوں میں صفائی، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے، گھر کی صفائی یا ہاکنگ کا کام کرتے ہیں۔
بنگال کے کوچ بہار کے علاوہ آسام، مغربی بنگال، بہار اور اتر پردیش سمیت ملک بھر سے ہزاروں خاندان بنگالی بستی کی تنگ گلیوں میں رہتے ہیں اور قریبی کالونیوں کے گھروں میں صفائی اور کام کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
انڈیا ٹومارو ن کی رپورٹ کےدہلی کے وسنت وہار میں بنگالی بستی میں کچھ لوگوں کو پولیس نے تین دن پہلے پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سادہ کپڑوں میں جو لوگ گاڑیوں میں آئے تھے کچھ لوگوں کے نام پوچھے اور انہیں گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔پولیس کے ذریعہ اس طرح کی کارروائی سے عام مسلمانوں میں خوف ہےاور پولیس کے رویے سے ناراضگی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم جانچ سے نہیں ڈرتے لیکن ہمارے ساتھ غیر ملکیوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے۔