پہلگام حملے کے بعد 14 دنوں میں ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز  واقعات میں اضافہ

 ہندو مسلم اشتعال انگیز تقاریر کے 64 واقعات؛ مہاراشٹر کا ریکارڈ سب سے زیادہ،غریب مسلم کاروباری شدت پسندوں کے نشانے پر

نئی دہلی ،03 مئی :۔

جموں و کشمیر کے پہلگا م میں گزشتہ 22 اپریل کو ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہندو شدت پسند تنظیمیں سر گرم ہو گئی ہیں اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے ۔خاص طور پر غریب اور پسماندہ مسلمان ان کے نشانے پر ہے۔اس حملے کے بعد نہ صرف کشمیری مسلمانوں کے خلاف بلکہ عام مسلمانوں کے خلاف بھی ملک بھر میں اشتعال انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے ۔

انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل ) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 22 اپریل سے 2 مئی کے درمیان نو ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں 64  سے زائد نفرت انگیز تقارر کے واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن میں مہاراشٹر میں سب سے زیادہ تعداد ریکارڈ کی گئی۔یہ واقعات مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دھمکی کی ایک مربوط ملک گیر مہم کے بعد ریکارڈ کئے گئے  جسے پہلگام کے  دہشت گرد حملے بعد ہندو انتہائی دائیں بازو کے گروپوں نے شروع کیا  ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان میں سے زیادہ تر ریلیاں ہندو  شدت پسند گروپوں جیسے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)، بجرنگ دل، انتراشٹریہ ہندو پریشد (اے ایچ پی)، راشٹریہ بجرنگ دل (آر بی ڈی)، ہندو جن جاگرتی سمیتی، سکل ہندو سماج، ہندو راشٹرا سینا، اور ہندو رکشا دل نے منعقد کیں۔رپورٹ میں کہا گیا، "یہ گروہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے اور تشدد، سماجی اور معاشی بائیکاٹ کے مطالبات کو متحرک کرنے کے لیے اس سانحے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ریاستوں میں، مہاراشٹر میں 17 واقعات کے ساتھ سب سے زیادہ تعداد درج کی گئی، اس کے بعد اتر پردیش (13)، اتراکھنڈ (6)، ہریانہ (6)، راجستھان (5)، مدھیہ پردیش (5)، ہماچل پردیش (5)، بہار (4)، اور چھتیس گڑھ (2)۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تقریبات میں مقررین نے معمول کے مطابق   مسلمانوں کے خلاف ناشائستہ  زبان استعمال کی، جس میں مسلمانوں کو ” سانپ”، "سور، کیڑے” اور "پاگل کتے” کہا  گیا۔

رپورٹ کے مطابق  بہت سے واقعات میں، مقررین نے تشدد کو ہوا دی اور مسلمانوں کو علاقوں سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں دیں۔متعدد غریب مسلم پھیری والوں کو علاقے سے نام پوچھ کر باہر نکال دیا گیا ،ان کا سامان پھینک دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق 23 سے 29 اپریل کے درمیان اتر پردیش، ہریانہ، بہار، ہماچل پردیش اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں نفرت انگیز تقریر کے متعدد واقعات ہوئے۔ انتہائی دائیں بازو کی شخصیات، بشمول بی جے پی کے ایم ایل اے نند کشور گرجر اور ہندو  شدت پسند گروپوں کے ارکان نے مسلمانوں کے لیے  فحش گالیوں کا استعمال کیا، ان کے معاشی اور سماجی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، تشدد پر اکسایا، اور ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ خود کو مسلح کریں۔ کئی ریلیوں میں، مقررین نے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے اور انہیں پاکستان اور بنگلہ دیش  کا حامی قرار دیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر  اور شدت پسند ہندو تنظیموں کی مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا اثر بھی نظر آیا ۔  خاص طور پر کشمیریوں کو- ہریانہ میں سڑک پر مسلمان دکانداروں پر حملہ اور گھیراؤ، کشمیری شال بیچنے والوں پر حملے، اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کے ایک رہنما کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ اتر پردیش میں ایک مسلمان پر حملہ جیسے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حملہ آور وں نے حملے کے دوران پہلگام واقعہ میں مرنے والوں کا حوالہ دیا اورمسلمانوں کو مارنے پر ہندوو بھیڑ کو اکسایا گیا۔