پہلگام حملےکے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے بھی دہشت گرد ہیں
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی کا پہلگام حملے کے بعد ملک بھر میں پیش آنے والے تشدد اور نفرتی واقعات پر اظہار تشویش

(دعوت ویب ڈیسک)
نئی دہلی،03 مئی :۔
پہلگام میں جو دہشت گردانہ حملہ ہوا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں مگر اس دہشت گردانہ واقعہ کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو بھی درست نہیں کہا جا سکتا،پہلگام سانحہ کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے بھی دہشت گرد ہیں ۔مذکورہ خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے آج یہاں جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس میں کیا۔اس دوران انہوں نے دہشت گرد حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔پریس کانفرنس کے دوران جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر اور قومی اسسٹنٹ سکریٹری ،شعبہ میڈیا سلمان احمد بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر اس افسوسناک اور سفاک حملے میں ہونے والے جانی نقصان پر گہرے رنج و غم اور غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری ہمدردیاں اور تعزیت متاثرین اور ان کے سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اس طرح کی بربریت کے عمل کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ یہ انسانیت سوز حرکت ہے اور اس کی واضح اور شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گرد حملے اور معصوم جانوں کا ضیاع اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سکیورٹی کے انتظامات ابھی بھی ناقص ہیں۔ حالانکہ خطے میں بھاری فوجی نفری کی موجودگی ہے لیکن ساتھ ہی پالیسی کی خامیاں بھی موجود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلگام حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹگھرے میں لایا جائے ،سکیورٹی کی ناکامیوں کی تحقیقات کی جائے اور زیادہ مضبوط سکیورٹی انتظامات کیے جائیں۔اس دوران پہلگام حملے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس حملے کی جانچ ہونی چاہئے اور جو لوگ مجرم ہیں انہیں سزا ملنی چاہئے اور انصاف کو جلد یقینی بنایا جانا چاہئے۔
کشمیر کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے اور طویل مدت تک سخت حفاظتی اقدامات کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن پہلگام کا المناک واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر میں معمول کی صورتحال بحال نہیں ہوئی ہے۔ اس قدر سخت نگرانی اور سکیورٹی کی موجودگی کے باوجود ایسا واقعہ کیسے پیش آ سکتا ہے؟ ہم کشمیری عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے حملے کے دوران سیاحوں کو بچانے میں غیر معمولی ہمت، ایثار اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا۔
پہلگام حملے کے بعد عام کشمیریوں پر ہونے والے حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ہم میڈیا اور کچھ سیاستدانوں کے اس رجحان کی شدید مذمت کرتے ہیں جو اس طرح کے سانحوں کو سیاسی و نظریاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلامو فوبیا پر مبنی بیانیہ، جھوٹی خبریں اور ان واقعات کو ہندومسلم نظریہ سے دیکھنے کی کوششیں سماج کو بانٹے والی ، غیر ملکی مفاد پر مبنی اور قابل مذمت ہیں۔
کشمیری طلبہ، ریہڑی والوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا ہمارے ملک کے اس بڑے مسئلے کا حصہ ہے جس میں حساس سلامتی کے معاملات کو اوچھی سیاست ، اسلامو فوبیا اور معاشرتی تقسیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ قابل تعریف ہے کہ ان تفرقہ انگیز کوششوں کو عام ہندوستانی عوام نے مسترد کر دیا ہے ۔ خاص طور سے متاثرین کے خاندانوں نے ان کی مذمت کی ہے۔ہم ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس دوران دہشت گردی کا بھی مذہب ہوتا ہے؟ سوال کے جواب میں امیر جماعت نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔در اصل وہ مذہب کے نام پر جو دہشت گردی کرتے ہیں وہ مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں۔
ماہانہ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کی قیادت نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) کی غیر آئینی وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف مہم ، ذات پر مبنی مردم شماری اور ملک میں مزدوروں کے مسائل پر بھی اظہار خیال کیا۔
سید سعادت اللہ حسینی، جو AIMPL کے نائب صدر بھی ہیں، نے کہا کہ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف ملک گیر مزاحمتی تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ قانون آئینی آزادیوں اور حقوق کے خلاف ورزی کرتا ہے اور مذہبی اوقاف کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے۔ ہم اس قانون کے خلاف بورڈ کی قانونی اور عوامی جدوجہد کی تائید کرتے ہیں اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اس قانون کی پرامن اور جمہوری مخالفت کریں۔
عالمی یوم مزدور کے حوالے سے جماعت اسلامی ہند کے امیر نے ملک کی محنت کش آبادی کے منظم استحصال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے 82 فیصد غیر رسمی مزدور ناقص اجرت، تحفظ کی کمی اور غیر صحت مندانہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم منصفانہ لیبر اصلاحات، تحفظاتی قوانین کی بحالی اور ILO معیار کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ مزدوروں کی عزت اور حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔حال ہی میں اعلان کردہ ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم ذات کی بنیاد پر مردم شماری کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ یہ تاریخی ناانصافیوں کے ازالے اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کے لیے اہم قدم ہے۔ البتہ اس مردم شماری کو شفاف، مکمل اور سیاسی مفاد پرستی سے پاک رکھا جانا چاہیے تاکہ یہ سماجی انصاف کو فروغ دے اور محروم طبقات کی مساوی ترقی کو یقینی بنائے۔