پونے: ہندوتو شدت پسندوں کی بائیکاٹ مہم اور دھمکیوں کے درمیان مسلم خاندان گاؤں چھوڑنے پر مجبور
گزشتہ دو مئی کو انا پورنا دیوی کی مورتی کی مبینہ بے حرمتی کے بعدہندوتو گروپوں کی مسلمانوں کے خلاف پوسٹر بازی،دکانیں بند،نقل مکانی پر مجبور

پونے،08 جولائی :۔
ملک میں مسلمانوں کے خلاف ٹارگٹ حملہ یا معاشی بائیکاٹ معمول بنتا جا رہا ہے ۔پونے میں دو گاؤں کے مسلم خاندان مقامی ہندوتو تنظیمیوں کی دھمکی اور بائیکاٹ کی مہم سے تنگ آ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پونے ضلع کے ملشی تعلقہ کے پوڈ اور پیرنگوت گاؤں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ دسیوں سال سے سکون پذیر مسلم خاندانوں کو مجبوراً اپنا خبر بار چھوڑنا پڑا،دکانیں بند کرنی پڑی اور کاروبار ٹھپ ہو گیا ۔ اس بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا محرک ایک مورتی کی بے حرمتی کے مبینہ واقعے کے بعد دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کی طرف سے دھمکیوں، نفرت انگیز پوسٹروں اور معاشی بائیکاٹ کی ایک مسلسل مہم ہے ۔
پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کی ایک مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نےگزشتہ 2 جولائی کو دیہی علاقوں کا دورہ کیا اور "خوف کی فضا”، دکانیں بند، اور بے گھر خاندانوں کی معلومات حاصل کی،یہ خاندان یہاں دہائیوں سے مقیم تھا۔ دیہی علاقوں میں "غیر مقامی مسلمانوں” کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنے والے پوسٹروں اور مہم کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق یہ 2 مئی کو اناپورنا دیوی کی مورتی کی مبینہ بے حرمتی کے واقعہ کے بعد رونما ہواجس کے بعد 5 مئی کو بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کے گروپوں کی قیادت میں ایک احتجاجی مارچ ہوا۔ ریلی کے دوران مبینہ طور پر مسلم باشندوں کو کھلی دھمکیاں دی گئیں۔
پونے دیہی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ سنگھ گل کے حکم پر پولیس کی جانب سے پوسٹروں کو ہٹانے کے باوجود، مسلم ملکیتی ادارے – جیسے کہ بیکریاں، سیلون، اور چکن اور اسکریپ کی دکانیں بند ہیں۔ پونے میں روشن بیکری کے مالک نے 4 جولائی کو پونے میں منعقدہ پی یو سی ایل پریس کانفرنس کے دوران کہا، "ہم نے متعدد شکایات درج کرائی ہیں، لیکن کوئی بھی ہماری دکان دوبارہ کھولنے میں مدد نہیں کر رہا ہے۔
پوڈ پولس اسٹیشن کے انسپکٹر سنتوش گریگوسوی نے نفرت انگیز پوسٹرز ہٹانے کی تصدیق کی لیکن تسلیم کیا کہ صورتحال اب بھی غیر مستحکم ہے۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ کچھ ہندوتوا کارکنوں نے مسلمان دکانداروں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں خالی کریں یا لیز پر دیں۔
ملزمان میں ہندو راشٹرا سینا کے رہنما دھننجے دیسائی بھی شامل ہیں، جو پہلے 2014 میں آئی ٹی پروفیشنل محسن شیخ کے قتل میں گرفتار اور بری ہو ا تھا۔ پولیس نے اب اس کے خلاف فارم ہاؤس پر ناجائز قبضے کے سلسلے میں مقدمہ درج کر لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ فی الحال مفرور ہے۔
ایک مقامی اسکریپ ڈیلر نے اپنا در بیان کرتے ہوئے کہا کہ جون کے اوائل میں اس کی دکان کو آگ لگ گئی تھی، جس سے 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اس نے اپنے خاندان کو کامشیٹ منتقل کر دیا ہے اور وہ پولیس کارروائی اور معاوضے کا انتظار کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد بہت سے متاثرہ خاندان بھاگ کر قریبی قصبوں میں چلے گئے ہیں یا اتر پردیش کے آبائی گائوں میں واپس آ گئے ہیں۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے، کئی طلباء بدامنی کے درمیان تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
ایک تشویشناک انکشاف میں، ایک مقامی باشندے نے 400 رکنی واٹس ایپ گروپ کے بارے میں بتایا جو مبینہ طور پر گاؤں میں مسلمانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں اپنے بچے کے لیے دوا خریدنے گیا تو میری تصویر فوراً گردش کر دی گئی۔
پی یو سی ایل نے اقتصادی بائیکاٹ کو غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ شہری حقوق کے گروپ اب قانونی چارہ جوئی کی تیاری کر رہے ہیں۔