’پولیس دفعہ 152 کا بیجا استعمال نہ کرے‘
الہ آباد ہائی کورٹ پاکستان کی مبینہ حمایت میں پوسٹ کرنے والے نوجوان ریاض کو ضمانت پر رہا کرنے کا دیا حکم

مشتاق عامر
نئی دہلی ،14 جولائی :۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم حکم نامے میں کہا ہے کہ صرف پاکستان کی حمایت یا اس کا اظہار کرنا قانون کی رو سے کوئی جرم نہیں بنتا ہے ۔ عدالت نے کہا کہ جب تک کہ کسی خاص واقعے کا ذکر نہ ہو یا بھارت کا نام نہ لیا جائے، بظاہر بھارتیہ نیائے سنہتا (BNS) کی دفعہ 152 کے تحت جرم نہیں بنتا۔عدالت نے اس دفعہ کا بیجا استعمال کرنے پر پولیس کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ریاض نام کے نوجوان کو انسٹاگرام پوسٹ میں پاکستان کی مبینہ حمایت کرنے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا تھا ۔ ریاض کی طرف سے داخل ضمانت کی عرضی منظور کرتے ہوئے جسٹس ارون کمار سنگھ دیشوال نے کہا کہ ریکارڈ کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست گزار نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے ہمارے ملک کی توہین ظاہر ہوتی ہو ۔عدالت نے کہا کہ مذہب ، نسل ، جائے پیدائش ، رہائش زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دینا بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 196 کے تحت قابل سزا ہو سکتا ہے ، جس کے تحت سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، لیکن یہ معاملہ یقینی طور پر دفعہ 152 کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ دفعہ 152 کے اطلاق میں ‘مناسب احتیاط’ کی ضرورت ہے ۔ بی این ایس کی دفعہ 196 کے تحت سات سال تک قید کی سزا ہے، جبکہ دفعہ 152 ایک غیر ضمانتی جرم ہے، جس میں عمر قید یا سات سال تک قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ دفعہ 152 کے اطلاق میں مناسب احتیاط برتی جائے کیونکہ یہ نیا قانون ہے جس کی سابقہ تعزیرات ہند (IPC) میں کوئی مماثلت نہیں۔عدالت نے کہا دفعہ 152 کے اجزاء کو لاگو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بولے گئے یا لکھے گئے الفاظ، اشارے، نظر آنے والی علامات یا الیکٹرانک مواصلات کا مقصد علیحدگی پسندی، مسلح بغاوت، تخریبی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہو یا ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو جو بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالیں۔عدالت نے مزید کہا کہ محض کسی بھی ملک کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرنا بھارتی شہریوں میں غصہ یا بد نظمی پیدا کر سکتا ہےاور یہ بی این ایس کی دفعہ 196 کے تحت قابل سزا ہے، جس میں سات سال تک قید ہو سکتی ہے، لیکن یہ معاملہ دفعہ 152 کے اجزاء پر پورا نہیں اترتا۔
جسٹس دیشوال نے کہا کہ بولے گئے الفاظ یا سوشل میڈیا پر پوسٹس بھی اظہارِ رائے کی آزادی کے دائرے میں آتی ہیں اور ان کی محدود معنوں میں تشریح نہیں ہونی چاہیے، جب تک کہ وہ اس نوعیت کے نہ ہوں جو ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالیں یا علیحدگی پسندی کی ترغیب دیں۔سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس سوشل میڈیا پوسٹ سے ملک کی عزت یا خودمختاری پر کوئی حرف نہیں آیا۔ نہ ہی اس میں بھارت کا ذکر ہوا، نہ بھارتی پرچم یا کوئی ایسی تصویر لگائی گئی جو ملک کے وقار کو مجروح کرتی ہو۔درخواست گذار کی طرف سے وکیل نے کہا کہ محض کسی ملک کی حمایت کرنا، چاہے وہ بھارت کا دشمن ہی کیوں نہ ہو، بی این ایس کی دفعہ 152 کے دائرے میں نہیں آتا۔
حکومت کی طرف سے سرکاری وکیل نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی پوسٹیں علیحدگی پسندی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ تاہم عدالت نے درخواست گزار کو ضمانت دیتے ہوئے ہدایت دی کہ وہ آئندہ سوشل میڈیا پر ایسا کوئی مواد پوسٹ نہ کرے جو عوام میں بد نظمی کا سبب بنے۔