پولیس اہلکاروں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر پیر میں گولی مار دی
میوات میں ہوئے تشدد کے الزام میں گرفتار منفید خان نے پولیس کی ظلم و زیادتی کا کیا انکشاف،جیل میں دہشت گردی کا بھی دیا گیا طعنہ
نئی دہلی ،29دسمبر :۔
میوات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد پولیس اہلکاروں نے جو یکطرفہ کارروائی کی تھی اس پر اس وقت بھی سوالات اٹھائے جا رہے تھے ،پولیس کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو رات کے اندھرے میں گھروں سے اٹھانے اور انہیں نا حق پھنسانے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا ۔اب جب پولیس کی قید سے نوجوان رہا ہو رہے ہیں تو وہ پولیس کی زیادتی اور ان کے ساتھ کی گئی نا انصافی کی دردناک کہانی بیان کر رہے ہیں ۔نوجوانوں نے ایسے الزامات عائد کئے ہیں کہ پولیس نے ایک سازش کے تحت مسلم نوجوانوں کو پھنسایا ہے۔
یاد رہے کہ ہریانہ کے نوح میں 31 جولائی 2023 کو ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد، پولس نے تقریباً 420 لوگوں کو گرفتار کیا تھا، جن میں سے ایک منفید خان بھی تھا، جو نلہار کے نلھاریشور مندر کے قریب دودھ فروخت کرتا تھا۔
منفید خان کو تشدد کے 10 دن بعد راجستھان سے گھر لوٹتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ ضمانت پر رہا ہونے والے منفید نے پولیس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور ٹانگ میں گولی ماری۔
روزنامہ بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق منفید خان کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد مجھے رات بھر جیل میں رکھا گیا اور اگلے دن صبح 5 بجے پولیس والے مجھے اٹھا کر لے گئے، آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی میں ڈال کر پہاڑی کی طرف لے گئے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟
مجھے پہاڑی پر لے جانے کے بعد ایک پولیس والے نے زبردستی میرے ہاتھ میں پستول تھما دی اور مجھے گولی مارنے پر مجبور کر دیا، جس کے بعد مجھے زمین پر اوندھے منہ لیٹا کر میری ٹانگ میں گولی مار دی گئی۔وہ گولی ابھی تک میری ٹانگ میں اٹکی ہوئی ہے، میں ایک ماہ جیل کے اسپتال میں رہا اور ایک ماہ جیل میں رہا، جیل اور اسپتال کا عملہ مجھے دہشت گرد اور پاکستانی کہتا تھا۔منفیڈ اب اپنا کاروبار بند کر چکا ہے اور گاؤں میں رہتا ہے اور اب بھی ٹانگ میں گولی لگنے کی وجہ سے لنگڑا کر چل رہا ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے منفید کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے ۔