پولیس اسٹیشن میں ہونے والی شادیاں اب قابل قبول نہیں

 الٰہ آباد ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ،رسوم و رواج کےساتھ انجام پائی شادیوں کو ہی قانون کی نظر میں جائز شادی تسلیم کیا جائے گا

نئی دہلی،05اکتوبر :۔

آج کل عام طور پر رشتہ داروں اور قرابت داروں سے بغاوت کر کے محبت کی شادی خوب رواج پا رہی ہے ۔ایسی شادیوں میں دیکھا جاتا ہے کہ پولیس اہم کردار ادا کرتی ہے اور جوڑے کو پولیس اسٹیشن میں بلا کر شادی کرا دی جاتی ہے اور پھر لواحقین پر دباؤ ڈال کر اسے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے ۔لیکن اس سلسلے میں  الٰہ آباد ہائی کورٹ کا ایک بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس اسٹیشنوں میں ہوئی شادی کو قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سنجے کمار سنگھ کی سنگل بنچ نے وارانسی کی اسمرتی سنگھ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ بیان دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’سپت پدی‘ ہندو شادی کا ایک لازم عنصر ہے۔ رسوم و رواج کے ساتھ انجام پائی شادی کو ہی قانون کی نظر میں جائز شادی تصور کیا جائے گا۔ اگر ویدک رسم سے شادی نہیں کرائی گئی ہے تو اس طرح کی شادیاں قانون کی نظر میں ناقابل قبول رہیں گی۔

عدالت نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ہندو شادی کے ایسے طریقے جس میں سات پھیرے یعنی کہ ’سپت پدی‘ کو شامل نہیں کیا جاتا ہے، وہ قانوناً جائز نہیں ہوگا۔ اتر پردیش میں پولیس اسٹیشن میں کرائی گئی شادیاں اس دائرے میں آتی ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی سول اور فیملی تنازعات کے معاملوں کی ماہر وکیل ابھیلاشا پریہار کا کہنا ہے کہ کئی بار لڑکے لڑکیوں کی محبت سے جڑے معاملے پولیس اسٹیشن میں پہنچنے کے بعد پولیس اہلکار تھانے میں ہی لڑکے-لڑکیوں کی شادیاں کرا دیتے ہیں۔ اس طرح کے معاملوں میں تھانے میں بنے مندر میں دیوی-دیوتاؤں کو گواہ مان کر لڑکے سے لڑکی کی مانگ میں سندور لگوا دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو مالا پہنوا دیتے ہیں۔ اس طرح کی شادیوں میں نہ تو پھیرے ہوتے ہیں، نہ ہی سپت پدی ہوتی ہے۔ ایسے میں تھانے میں ہونے والی شادیوں کے جواز پر سوال اٹھیں گے اور انھیں قانونی طور سے قابل قبول نہیں مانا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ اسمرتی سنگھ عرف موسمی سنگھ نے اپنے شوہر ستیم سنگھ سمیت سبھی سسرال والوں پر طلاق دیے بغیر دوسری شادی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے وارانسی ضلع کورٹ میں کیس داخل کیا تھا۔ اس پر عدالت نے عرضی دہندہ کو سمن جاری کر طلب کیا تھا۔ کیس اور سمن کو ہائی کورٹ میں چیلنج پیش کیا گیا۔ اس میں عرضی دہندہ کا کہنا تھا کہ اس کی شادی 5 جون 2017 کو ستیم سنگھ کے ساتھ ہوئی تھی، لیکن تنازعہ کے سبب عرضی دہندہ نے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف جہیز سے متعلق مظالم اور مار پیٹ وغیرہ کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔

اس معاملے میں سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ عرضی دہندہ کے خلاف درج شکایت میں شادی تقریب منعقد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے، جبکہ جائز شادی کے لیے شادی تقریب کا سبھی رسوم و رواج کے ساتھ منعقد ہونا ضروری ہے۔