پلیسز آف ورشپ ایکٹ معاملہ میں متھرا شاہی عید گاہ کمیٹی کا مرکزی حکومت پر سنگین الزام
سپریم کورٹ میں قصداً جواب داخل نہیں کر نے کا الزام،مرکزی حکومت کے جواب داخل کرنے کے اختیار کو ختم کرنے کا مطالبہ
نئی دہلی ،21 جنوری :
حالیہ دنوں میں انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے قدیم مساجد اور درگاہوں کو مندر ہونے کے دعوے اور ضلعی عدالتوں میں درخواستوں کی بھر مار کے بعد پلیسیز آف ورشپ ایکٹ سرخیوں میں ہے ۔ اس سلسلے میں عبادت گاہوں کے قانون کو نظر انداز کئے جانے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا اور ایکٹ کو موثر بنانے کی عرضیاں بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں مگر ان سب میں مرکزی حکومت کی سست روی پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں ۔ اب متھرا کی شاہی مسجد عیدگاہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کےمرکزی حکومت پر ایک سنگین الزام عائد کیا ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت قصداً ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ معاملے میں اپنا جواب داخل نہیں کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں مسجد کمیٹی نے 21 جنوری کو سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں داخل اپنی عرضی میں مسجد کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ مسجد کمیٹی نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ مرکز کا جواب داخل کرنے کا حق ختم کیا جائے۔ عبادت گاہوں کے قانون پر سماعت 17 فروری کو ہونے والی ہے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق مسجد کمیٹی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کا جواب داخل کرنے کا حق ختم کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ میں داخل اپنی عرضی میں مسجد کمیٹی نے دلیل پیش کی ہے کہ مرکزی حکومت قصداً اپنا جواب داخل نہیں کر رہی ہے، جس کی وجہ متعلقہ فریقین کو مقدمات پر تحریری پریزنٹیشن اور رد عمل داخل کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے۔ خصوصاً ان فریقین کو دقت ہو رہی ہے جو ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کو چیلنج پیش کیے جانے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ عرضیوں کے ایک گروپ میں دستخط کنندہ ہے اور متھرا میں شاہی مسجد عیدگاہ کے مینجمنٹ کے لیے ذمہ دار ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ اس طرح کے 17 مقدمات کی سماعت کی جا رہی ہے۔
مسجد کمیٹی نے اپنی عرضی میں یہ بھی مطلع کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 12 دسمبر کو جواب داخل کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو 4 ہفتہ کا وقت دیا تھا۔ اس کے باوجود اب تک حکومت نے جواب داخل نہیں کیا ہے۔ مسجد کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکز کو پہلی بار مارچ 2021 میں نوٹس جاری کیا گیا تھا اور اس کے بعد کئی بار اوقات میں توسیع کی گئی تھی۔ اس کے باوجود اب تک جواب داخل نہیں کیا گیا ہے۔مسجد کمیٹی نے مرکزی حکومت کے ذریعہ جواب داخل کرنے میں سستی پر سوال اٹھاتے ہوئے دانستہ طور پر معاملے کو الجھانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے سروے پر اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ اس عبادت گاہوں کے قانون کی درستی کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔