پسند کی شادی کرناایک بالغ لڑکی کا آئینی حق
الہ آباد ہائی کورٹ نے پسند کی شادی کرنے کے خلاف اہل خانہ کی عرضی مسترد کی

مشتاق عامر
نئی دہلی ،21 جون :۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک بالغ خاتون کے اپنی پسند سے شادی کرنے کے فیصلے پر اہلِ خانہ کی طرف سے ڈالی جا رہی رکاوٹ پر اپنی سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ کورٹ نے اہل خانہ کے اعتراض کو ’ قابلِ نفرت ‘ قرار دیا ہے۔ خاتون کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے جسٹس جے جے منیر اور جسٹس پروین کمار گری پر مشتمل بنچ نے کہا کہ اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کا حق بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 (زندگی اور شخصی آزادی کا حق) کے تحت محفوظ ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ اس درخواست کی سماعت کے دوران دیا جو خاتون کے والد اور بھائی کے خلاف خاتون نے درج کرائی تھی ۔ خاتون نے مرزاپور ضلع کے چیلہ تھانے میں بھارتیہ نیائے سنہیتا کی دفعات 140(3) (اغوا)، 352 (توہینِ عمدی جس کا مقصد امن میں خلل ڈالنا ہو) اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔مرزا پور ضلع کی رہنے والی ایک خاتون کے اپنی پسند سے شادی کرنے کے آئینی حق کا دفاع کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے خاندان اور اس کےرشتہ داروں کو سخت پیغام دیا جنہوں نے اس کی پسند پر اعتراض کیا اور اس رویے کو سماجی قدروں کے خلاف قرار دیا۔یہ معاملہ ایک 27 سالہ خاتون سے متعلق تھا جسے اپنی پسند کے شریکِ حیات کا انتخاب کرنے پر اغوا کے خدشے کے تحت اپنے والد اور بھائی کے خلاف شکایت دے کر پولیس سے مدد کرنے کی درخواست کی تھی۔
جسٹس جے جے منیر اور جسٹس پروین کمار گری پر مشتمل ڈویژن بنچ نے خاندان کی مخالفت کو ’ قابلِ نفرت‘ قرار دیا اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 کا حوالہ دیا جو بالغ افراد کو اپنی پسند سے شادی کا حق دیتا ہے۔پنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ یہ قابلِ نفرت بات ہے کہ درخواست گزار ایک بالغ خاتون ہے اور اپنی پسند کے مرد سے شادی کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔اس کے فیصلے پر اہل خانہ اعتراض کر رہے ہیں اور رکاوٹ بن رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کم از کم یہ حق تو ہر بالغ فرد کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت حاصل ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ موجودہ شواہد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ درخواست گزار (والد اور بھائی) کا خاتون کو اغوا کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔عدالت نے اس معاملے کو ایک بڑے سماجی مسئلے کی علامت قرار دیا یعنی قانونی حقوق اور روایتی سماجی اقدار کے درمیان فرق۔ عدالت کہا کہ یہ حقیقت کہ شادی جیسے معاملے میں خاتون کی پسند کے خلاف سماجی اور خاندانی مزاحمت موجود ہے۔ ایسی صورت میں آئینی اور سماجی اقدار کے درمیان ایک واضح فرق موجودہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک آئینی اقدار اور معاشرتی اقدار میں یہ خلا موجود رہے گا ، اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔اگرچہ عدالت نے درخواست گزاروں کو عبوری تحفظ دیتے ہوئے ان کی گرفتاری پر روک لگا دی تاہم اس نے سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ خاتون کی زندگی میں مداخلت نہ کریں اور نہ ہی کسی صورت میں اس سے رابطہ کریں۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ یہ قابلِ نفرت بات ہے کہ درخواست گزار ایک بالغ خاتون ہے اور اپنی پسند کے مرد سے شادی کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔اس کے فیصلے پر اہل خانہ اعتراض کر رہے ہیں اور رکاوٹ بن رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کم از کم یہ حق تو ہر بالغ فرد کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت حاصل ہے۔
عدالت حکم دیا ہے کہ درخواست گزار والد اور بھائی ٹیلی فون ، کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس یا انٹرنیٹ، دوستوں یا ساتھیوں کے ذریعے خاتون سے رابطہ نہیں کریں گے۔ پولیس کو بھی خاتون کی آزادی اور آزادیِ رائے میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے روکا گیا ہے۔اس کے علاوہ عدالت نے ریاستی حکومت اور دیگر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تین ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔