پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت  پر سپریم کورٹ راضی

نئی دہلی ،20 مئی :۔

اشوکا یونیور سٹی کے پروفیسر اور شعبہ سیاسیات کے سر براہ علی خان محمود آباد کی گرفتاری کے خلاف ہر طرف آواز اٹھ رہی ہے ۔متعدد سینئر دانشور اور مختلف یونیور سٹی کے پروفیسروں نے پروفیسر خان کی گرفتاری کو غیر قانونی اور تعصب پر مبنی قرار دیا ہے ۔ دریں اثنا پروفیسر خان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے جس پر سپریم کورٹ نے سماعت کیلئے رضا مندی ظاہر کر دی ہے ۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے پیر کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی ہریانہ پولیس کی طرف سے آپریشن سندور پر ان کے تبصرہ اور مبینہ طور پر ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی تذلیل کے الزامات کے تحت گرفتاری کو   چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کرنے پر اتفاق کیا۔سینئر وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گو ئی کو بتایا  "اشوکا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے خلاف مکمل طور پر حب الوطنی پر مبنی بیانات پر کارروائی کی گئی ہے۔  سبل نے عدالت میں اپیل کی   کہ اگر ممکن ہو تو اسے 21 مئی کو  سماعت کیلئے شامل کریں۔چیف جسٹس آف انڈیا نے  اسے جلد سننے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن تاریخ  ابھی ظاہر نہیں کی ہے۔

واضح رہے کہ علی خان محمود آباد نے آپریشن سندور کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کیا تھا جس میں خاتون فوجی افسران کی ستائش کرتے ہوئے ملک کے تنوع کی تعریف کی تھی ۔مگر اس بیان کو بی جے پی اور دائیں بازو کے حامی افراد نے غلط طریقے سے پیش کرتے ہوئے اس کو خواتین افسران کی توہین قرار دیا اور ایف آئی آر درج کرا دی ۔صرف یہی نہیں بلکہ ہریانہ کو خواتین کمیشن نے اسے خواتین فوجی افسران کی تذلیل سے تعبیر کرتے ہوئے سمن جاری کیا۔جس پر تمام پروفیسرز برادری نے آواز اٹھائی اور ان کی گرفتاری کو تعصب پر مبنی قرار دیا۔گزشتہ  14 مئی کو میڈیا کو ایک بیان میں، محمود آباد نے کہا کہ ان کے تبصرے کو "مکمل طور پر غلط سمجھا گیا” اور دعویٰ کیا کہ کمیشن کا اس معاملے میں "کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے ۔

ان کی وضاحت کے باوجود پروفیسر محمود آباد کی گرفتاری ہو گئی جس کے خلاف اب سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے ۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر جلد سماعت کرتے ہوئے فیصلے سنائے گا۔